logoختم نبوت

عقیدہ ختم نبوت۔۔۔از۔۔۔مفتی عبد المجید سعیدی

مختصر تعارف مرزائیت و قادیانیت

متحدہ ہندوستان کے دور میں غیر مسلموں کی سازش کا حصہ بن کر اور انگریزوں کی ایجنٹی کا کردار ادا کرتے ہوئے اسلام میں رخنہ ڈالنے اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کی غرض سے ایک نام کے غلام احمد شخص نے ۱۹۰۱ء میں یہ جھوٹا دعوی کیا کہ وہ معاذ اللہ ، اللہ کا نبی ہے۔ اس کے آبائی علاقہ کا نام قادیان تھا جس کی نسبت سے اسے قادیانی کہا جاتا ہے۔

اس کی قوم مغل ، بر لاس تھی جس کی افراد کو مرزا کہا جاتا تھا جیسے کئی اقوام کو جام، ملک اور خان وغیرہ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ بناء علیہ اس کے جھوٹے دعوی نبوت کی نسبت سے اس کے نظریہ بد کو مرزائیت اور قادیانیت کہا جاتا ہے۔ مرزائی اور قادیانی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لیکن مرزا کا حلقہ وسیع کرنے اور اس کا نیٹ ورک بڑھانے کے قصد سے مرزا کے ماننے والوں نے بعض اُمور میں آپس میں مصنوعی اختلاف ظاہر کر کے خود کو دو دھڑوں میں تقسیم کر لیا ہے۔ جبکہ وہ حقیقت میں ایک ہی ہیں کیونکہ دونوں کا مقصد اور مشن ایک ہی ہے اور وہ ہے چالبازی سے لوگوں کو ادھر ادھر سے بہکا کر مرزا کا معتقد بنانا اور اگلے چوک میں اکٹھے ہو جانا ۔ بناء علیہ دونوں کا حکم شرعی ایک ہی ہے۔ (تفصیل آئندہ سطور میں عنقریب آرہی ہے )

مرزائیت کا ما بہ الامتیاز نیز اس کے ابطال کا طریقہ :

مرزائیت اور قادیانیت کا مابہ الامتیاز امران کا عقیدہ ختم نبوت کا انکار ہی ہے لہٰذا اس حوالہ سے اس کے باطل ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کسی لمبی چوڑی بحث و تمحیص کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے لئے ایک ہی امر کا معیاری دلائل سے ثابت کر دینا کافی ہے جو حضور ﷺ کا خاتم النبین بمعنی آخر النبین ہونا ہے۔ جس سے مرزا قادیانی کا جھوٹا ہونا خود بخود واضح ہو جاتا ہے جس کی مجموعی طور پر تین شقیں بنتی ہیں ۔

(۱) یہ کہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں (۲) یہ کہ آپﷺخاتم النبيين بمعنى آخر النبیین ہیں اور (۳) یہ کہ مرزا قادیانی اپنے دعوی نبوت میں بالکل جھوٹا ہے۔ معیاری دلائل سے مراد دلائل شرعیہ ہیں لہذا مسئلہ ہذا پر مرزائیوں سے گفتگو سے پہلے یہ طے کر لیا جائے کہ فریقین اس میں دلائل شرعیہ ( قرآن وحدیث اور اجماع امت ) کے پابند ہوں گے۔ مان جائیں تو یہ ان کے لئے پیغام موت ہے کیونکہ ان کے پاس ان کے دعوئی کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے اور نہ مانیں تو بھی ابھی سے انہوں نے اپنے کافر ہونے پر ڈگری کر دی کیونکہ بعد میں آنے والا سچا نبی، پہلے سچے نبی اور اس کی کتاب کا مصدق ہوتا ہے، مکذب نہیں ہوتا ورنہ اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ یہ مدعی نبوت جاری سلسلے کا حصہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس سے ہٹ کر ہے جو اس کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے۔

(اس کی وضاحت قرآن مجید کی آیت کریمہ

ثُمَّ جَاء كُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ 1

کی ایک تفسیر اور نیز آیت کریمہ

قُلْ مَا كُنتُ بِدُعَا مِنَ الرُّسُلِ 2

کے مضمون سے بھی ہوتی ہے ) ۔

عقیدہ ختم نبوت کی شرعی حیثیت نیز حکم مسئلہ :

مسئلہ ھذا کی مذکورہ تینوں شقوں پر دلائل سے تفصیل کے بیان سے قبل یہ بھی ضروری ہے کہ مسئلہ لھذا کی شرعی حیثیت نیز حکم مسئلہ کو بھی سمجھ لیا جائے ۔ فاقول وبالله التوفيق

اقسام مسائل:

ایک اعتبار سے مجموعی طور پر دینی مسائل کی تین اقسام ہیں جو حسب ذیل ہیں :

(1) ضروریات دین:

یعنی دین اسلام کے وہ بنیادی اُمور کہ مسلمان ان میں سے کسی کا معاذ اللہ انکار کر دے تو وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار پاتا ہے اور کافر، مسلمان ہونا چاہیے تو جب تک ان کو مانے ، اسے مسلمان شمار نہیں کیا جاتا جیسے وحدانیت اللہ اور عقیدہ آخرت و غیر ہما۔

(۲) ضرورت اہلِ سنت :

یعنی دین اسلام کے وہ اُمور جن پر تمام اہل سنت کا اجماع ہو ان میں سے کسی کا انکار کرنے والا اہل سنت سے خارج اور گمراہ قرار پاتا ہے اور غیر سنی جب تک ان کو نہ مانے ، وہ سنی شمار نہیں ہوتا جیسے افضلیت حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور ائمہ اربعہ رحم الله اجمعین میں سے کسی کا تقلید و غیر ھما۔

(۳) مختلف فیها بین اہل السنہ:

یعنی دین اسلام کے وہ امور جن کی شرعی حیثیت میں اہل سنت کی آراء مختلف ہوں ۔ بالفاظ دیگر دین کے اجتہادی امور جن کے بارے میں قرآن وحدیث میں صاف اور صریح فیصلہ موجود نہ ہو جیسے وضو میں سر کے مسح کی مقدار اور قوالی کا مسئلہ و غیر ھما۔ ایسے امور میں کسی فریق کی تفیل کجا تسفیق بھی نہیں ہوتی جبکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔ ملاحظہ ہو فتاوی حامد یہ طبع ، از شہزادہ اعلی حضرت حجة الاسلام حضرت علامہ مولانا حامد رضا خان علیہ الرحمة والرضوان ۔

اس تفصیل کے بعد اب سمجھئے کہ عقیدہ ختم نبوت مسائل کی قسم اول سے ہے یعنی یہ عقیدہ متواتر قطعی اور ضروریات دین سے ہے۔ جس پر پوری امت مسلمہ اور ہر دور کے جملہ اہل اسلام کا حقیقی اجماع و اتفاق ہے جس سے مرزائیوں کے کافر ہونے کی وجہ بھی روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ چونکہ وہ دین کے ایسے ضروری اور بنیادی امر کے منکر ہیں جس کا انکار کفر اور خروج عن الاسلام ہے اس لیے وہ کافر و مرتد اور اسلام سے خارج ہیں کیونکہ ختم نبوت کا انکار پورے دین اسلام کے ابطال کے مترادف ہے۔

شذره در حکم فرقہ نانوتویہ :

مؤلف تحذیر الناس و امثالہ اور ان کے پیروکاروں کا حکم بھی مرزائیوں والا ہے بلکہ اشد ہے کیونکہ سب سے پہلے موصوف نے ہی نا معلوم کس کے خفیہ اشارہ پر عظمت نبوت کے بیان کے زربغت پر دے میں خاتم النبیین بمعنی آخر النبین کو نا سمجھ عوام کا خیال اور بے وقوفوں کا معنی قرار دے کر خرق اجماع کیا یعنی اس اجماع کو توڑا اور جھوٹے مدعیان نبوت کے لئے گنجائش نکالی اور ان کے لیے چور دروازہ کھولا ۔

پس اگر یوں کہہ دیا جائے تو کچھ بے جانہ ہوگا کہ مرزا قادیانی نے بھی مؤلف تحذیر موصوف سے ہی شہ پا کر نبوت کا جھوٹا دعوی کیا۔ بالفاظ دیگر اس مسئلہ میں مرزا کے لئے راہ ہموار کرنے والے یہی صاحب ہیں کیونکہ مرزا نے کتاب مذکور کی تصنیف کے کم و بیش اٹھائیس سال بعد تقریباً ۱۹۰۱ ء میں دعوی نبوت کیا مرزائی بھی اس میں خود کو مؤلف تحذیر الناس کا مرہون منت سمجھتے اور اپنا اصل محسن تصور کرتے ہیں اور تحریری تقریری مناظروں میں ان کا اپنے مد مقابلین سے مرکزی سوال یہی ہوتا ہے کہ اگر وہ اس لئے کافر ہیں کہ انہوں نے خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین ہونے سے انکار کیا ہے تو یہ کام ان سے پہلے نانوتوی نے کیا ہے وہ تو صرف ان کے بتائے ہوئے راستہ پر چل پڑے ہیں بناء علیہ نانوتوی پر بھی یہی فتویٰ لگنا چاہیے۔ اور اگر اس کے باوجود نانوتوی کا فرنہیں تو وہ کیوں کافر ہیں جبکہ نوعیت جرم ایک ہی ہے تفصیل کے لئے مرزائیوں کا تحریر کردہ رسالہ ”خاتم النبیین اور بزرگانِ اُمت “دیکھا جا سکتا ہے۔

مزید یہ کہ سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب حکومت کے زیرنگرانی مرزا قادیانی کے اس وقت کے جانشین ( مرزا ناصر آنجہانی ) سے نیشنل اسمبلی ہال اسلام آباد میں ہمارے علماء غزالی زماں علیہ الرحمۃ والرضوان کے زیر سایہ انتہائی کامیابی سے جو تاریخی مناظرہ فرمایا تھا جس کی بنیاد پر مرزائی غیر مسلم قرار پائے تھے ۔ (نوٹ:واضح رہے کہ پاکستان میں مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرار داد سب سے پہلے حضرت غزالی الزماں علیہ الرحمةوالرضوان نے پیش فرمائی تھی اور یہ ۱۹۵۲ ء کی بات ہے)۔ اس میں بھی آخری حربہ کے طور پر جو سوال اٹھایا گیا تھا ، یہی تھا۔ ہمارے علماء نے یہ سوال، نانوتوی کے ماننے والے بعض شرکاء جلس مناظرہ دیو بند علماء کی طرف بڑھا دیا جس کے جواب سے وہ عاجز رہے۔

جس کے بعد ہمارے علماء نے امام اہل سنت اعلیٰ حضرت الامام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰکی کتاب لا جواب حسام الحرمین (مصد قہ ۳۴ علماء حرمین طیبین ) کا عندیہ پیش کر کے مناظرہ کی جیت کو چار چاند لگا دیئے کہ اس زمانہ میں عرب و عجم کے علماء اسلام کے جم غفیر نے صراحت کے ساتھ مرزا قادیانی اور مؤلف تحذیر الناس دونوں کو ایک ہی کھاتے میں ڈالا تھا ( مکمل تفصیل قومی اسمبلی کے ریکارڈ پر محفوظ اور کئی رسائل میں مطبوعہ صورت میں موجود ہے ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیابنہ حضرات جواب مرزائیوں سے برسر پیکار نظر آتے ہیں، یہ عقیدہ ختم نبوت کی حمایت کے جذبہ سے نہیں بلکہ دراصل اس وجہ سے ہے کہ ان کو اس بات کا دکھ ہے کہ محنت انہوں نے کی ہے اور فائدہ اُٹھایا مرزا اور اس کے گروپ نے اور یہ بے چارے منہ دیکھتے رہ گئے ۔

خلاصہ یہ کہ مسئلہ ہذا میں نانو تو یہ اور مرزائیہ کا حکم ایک ہی ہے کیونکہ اس میں اصل کردار اول الذکر ہی کا ہے تو لیجئے اب پڑھیئے بحث کی تینوں شقوں کی تفصیل مع الدلائل۔

بحث کی شق ا ( حضورﷺ خاتم النبیین ہیں ) کی تفصیل:

آپﷺ کے خاتم النبیین ہونے نیز ختم نبوت کے وصف سے متصف ہونے کا بیان قرآن مجید، احادیث صحیحہ کثیرہ متواترہ اور اجماع تمام دلائل شرعیہ میں صریحاً موجود اور یہ عقیدہ دلائل عقلیہ سے ثابت ہے۔ طوالت سے بچتے ہوئے تکمیل عنوان کی غرض سے بر دست اس سلسلہ کی ایک آیت کریمہ کا پیش کر دینا کافی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا 3
محمدﷺ ہم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

یہ آیت کریمہ اس بارے میں نص صریح اور عبارة النص ہے کہ حضور ﷺ خاتم النبيين اور وصف ختم نبوت سے متصف و موصوف ہیں ۔

بحث کی شق ۲ ( حضور ﷺخاتم النبيين بمعنی ”آخر النبيين“ ہیں) کی تفصیل:

جبکہ آپﷺکے خاتم النبیین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ سب نبیوں میں آخری نبی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جتنے انبیاء کرام علیہم الرضوان کو بھیجنا تھا، وہ سب آچکے ، ان میں سے صرف ایک ہستی باقی تھی جسے سب سے آخر میں بھیجا جانا تھا پھر انہیں سب سے آخر میں بھیجا گیا جو حضور کی ذات بابرکات ہے۔ عليه افضل الصلوات واكمل التسليمات ۔ اب پڑھیے اس کے کچھ دلائل ۔

خاتم النبيين بمعنى آخر النبیین کے دلائل :

دلیل ۱ ،۲ ( آیت کا لفظ خاتم بالفتح نیز خاتم بالکسر )

خاتم النبيين بمعنى آخر النبيين دلائل سے خود پیش نظر آیت بھی ہے تفصیل یہ ہے کہ اس میں جو لفظ خاتم وارد ہے اس میں دو قرائتیں ہیں :

(1) خاتم یعنی ت کی فتح (زبر) کے ساتھ جیسا کہ قرآن کے پورے جہان کے مروجہ نسخہ میں ہے۔

(2) خاتم کی کسرہ (یعنی زیر) کے ساتھ۔ اور یہ دونوں قراء تیں متواتر یعنی قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں جن کے ثابت ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں۔

جن کا انکار کفر اور منکر، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ خاتم بكسر التاء صیغہ اسم فاعل ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ختم کرنے یا مہر لگانے والا ۔ جبکہ خاتم انفتح التاء اسم آلہ کا صیغہ ہے جیسے عالم ، وغیرہ معنی ہے ختم کرنے یا مہر لگانے کا آلہ ۔ یہ دونوں عربی مروج ہیں،

پہلے معنی کی مثال جیسے خَاتِمَهُ الْكِتَابِ، خَاتِمَہ بِالْخَيرُ نیز حدیث شریف میں ہے إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيم ( رواه الترمذی)

دوسری معنی کی مثال جیسے: خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ ، نیز خَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وغيرهما

یہ معنی اول کی صورت میں حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا معنی ہوگا سلسلہ نبوت کی تکمیل کرنے والا اور سلسلہ نبوت کی تکمیل کا ذریعہ یعنی جن کے ذریعہ اس سلسلہ کی تکمیل ہوئی اور جن پر یہ سلسلہ مکمل ہوا اس طرح سے کہ آپ ﷺان سب میں آخری ہیں۔

معنی دوم کی صورت میں تفصیل یہ ہے کہ قرآن مجید اپنے زمانہ نزول کے عرف و عادات کی رعایت سے اترا ہے جبکہ اس دور کے معاشرہ کے بڑے سمجھے جانے والے مختلف علاقوں کے بہت سے لوگوں میں یہ معمول تھا کہ کسی معتبر شخصیت کے خطوط اور مکاتیب کو اس کی مہر کے بغیر درخور اعتناء نہیں سمجھتے تھے بناء علیہ مکاتیب مرسلہ اور موصولہ وہی معتبر سمجھتے تھے جن کی تحریروں کے آخر پر مہر ہوتی تھی اس کے بغیر وہ جعلی متصور ہوتے تھے اور کم از کم یہ کہ انہیں مشکوک سمجھا جاتا تھا۔ نشان مہر کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ مطلوبہ تحریر یہاں تک مکمل ہے نیز یہ کہ یہ تحریر واقعی مہر کندہ کی ہے۔

اسی تناظر میں ہمارے حضورﷺنے بھی اپنے والا ناموں کے لئے مہر بنوائی (تفصیلات کتب سیرت طیبہ میں دیکھی جاسکتی ہے )

یہی وجہ ہے کہ یہ امر آج بھی مروج ہے کہ فتوٹی وغیرہ میں جو عبارت دستخط اور مہر کے بعد تذیلاً واقع ہوتی ہے اسے جعلی سمجھے جانے سے بچانے کے لئے اس پر مزید دستخط و مہر ثبت کیے جاتے ہیں۔ پھر مہر عموماً انگوٹھی میں بنائی جاتی تھی اس لیے انگوٹھی کو عربی میں خاتم بھی کہا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ پانی الایام کو خاتم کے لفظوں سے یاد فرما کر آپ کو خاتم النبیین کہا گیا اور مسئلہ ختم نبوت کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا۔

اس تفصیل سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ آیت کے الفاظ ”خاتم النبيين“ میں لفظ خاتم میں تاء کی فتح والی قرآت کو ملحوظ رکھیں یا کسرہ والی قرآت کو، بہر صورت یہ الفاظ حضور صلی السلام کے خاتم النبین ہونے کی دلیل ہیں جو اسی مفہوم کو بیان فرمانے کے لئے ہی لائے گئے ہیں ۔ ولله الحمد وهو المقصود

دلیل ۳ ( آیت خاتم النبیین کی شانِ نزول اور وجہ استدراک ) ”لکن“

آیت خاتم النبیین کی شانِ نزول اور اس کے لفظ لکن کی وجہ استدراک بھی خاتم النبيين بمعنى آخر النبیین ہونے کی دلیل ہے جس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اپنے ماں باپ اور خاندان والوں کو بالکلیہ چھوڑ کر حضور ﷺہی کے ہو کر رہ گئے اور صاف صاف کہہ دیا کہ میرا سب کچھ آپ ہیں۔ تو آپ ﷺ نے ان پر کمال شفقت فرماتے ہوئے نہ صرف یہ کہ انہیں اپنا متبنی (منہ بولا بیٹا )بنا لیا بلکہ کرم بالائے اپنے خاندان عالی میں اپنی حقیقی پھو پھی زاد حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کی شادی بھی فرمادی لیکن یہ رشتہ بناء بر حکمت زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث حضرت زید نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی ۔

اس زمانہ میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح اور اس کی بیوی کو حقیقی بہو تصور کرنے کی رسم تھی بناء علیہ طلاق یا وفات کی صورت میں اس کی بیوہ سے نکاح کو حرام سمجھا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس رسم کا خاتم ہو اس لیے اس (اللہ ) نے حضرت زید کی مطلقه بیوی حضرت زینب بنت جحش کی عدت کے بعد انہیں خود ہی حضور صلی الہ وسلم کے نکاح میں دے دیا۔

تفصیل قرآن مجید کے پارہ ۲۲ سورہ احزاب آیت ۳۶ تا ۳۹ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

مخالفین و معاندین نے موقع سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ ملی ایام کے خلاف سخت پرو پیگنڈہ کیا اور اس بات کو بہت ہوا دی کہ معاذ اللہ حضور ﷺ نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی ( یعنی اپنی بہو ) سے شادی کر لی ہے۔

اللہ تعالی نے اس کا جواب خود دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ کام ہم نے خود کیا ہے جس سے مقصود جاری غلط رسم کا قلع قمع فرمانا ہے اور یہ کام حضور کے ذریعہ اس لئے کیا کہ وہ میرے رسول ہیں جو نسل انسانیت کے لئے اسوۂ حسنہ ہیں اور سب کے لئے رہبر و راہنما نیز مقتدا و پیشوا ۔ باقی منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھنا ، اسی طرح اس کی بیوی کو حقیقی بہو گردانتے ہوئے اس سے نکاح کو حرام قرار دینا تمہارا خود ساختہ فیصلہ ہے، میرا فیصلہ نہیں جب کہ یہ فیصلے میرے کرنے کے ہیں تمہیں اس کا اختیار ہم نے کب دیا۔ نہ زید میرے محبوب کا حقیقی بیٹا ہے نہ اس کی بیوی آپ کی حقیقی بہو، پس اس حوالہ سے تمہارا میرے محبوب پر اعتراض ہی بے محل ہے اور فرمایا :

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ اللَّهِ
میرا محبوب محمد تم میں سے کسی مرد کا نسبی باپ ہے ہی نہیں ۔

یعنی آپ کی اولاد میں آپ کا کوئی بیٹا ایسا ہے ہی نہیں جو جوانی کی عمر کو پہنچا ہو زید بھی ان میں شامل ہے پس اس کی بیوی آپ کی بہو کیسے ہوئی ۔

اس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ملی ایام کسی مرد کے باپ نہیں ہیں تو امت آپ کی شفقت سے محروم رہی کیونکہ یہ باپ کا منصب ہے۔

تو اس وہم کا ازالہ (استدراک) فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ

یعنی نسبی باپ نہیں روحانی باپ تو ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہے اور وہ بھی ایسے کہ اس سلسلہ کے آخری تاجدار ہیں جن کے بعد کوئی اور نہیں آئے گا جو امت کے سروں پر دست شفقت رکھنے والا ہو لہذا آپ کمال درجہ شفیق ہوئے۔

کیونکہ رسول اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے جس کی شفقت نسبی ماں باپ سے کئی درجہ بڑھ کر ہوتی ہے کہ ماں باپ جنم دے کر فارغ ہو گئے ، آگے اسے اخروی خسارہ سے بچا کر ابدی نجات اور کامرانی ، رسول کے ذریعہ نصیب ہوتی ہے۔

لہذا آپ کے نسبی باپ : کے نسبی باپ نہ ہونے سے آپ کی شفقت کی نفی سمجھنا از حد غلط اور خلاف حقیقت ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔

الغرض آیت ھذا کا پس منظر اور اس کی شانِ نزول بھی اس امر کی روشن دلیل ہے کہ آپ ملی ایم کا خاتم النبین ہونا، آخر النبین ہونے کے معنی میں ہے، یعنی آپ سب نبیوں سے آخری نبی ہیں اور سلسلہ نبوت سے صرف آپ ہی باقی تھے ، آپ کی تشریف آوری سے اس کی تکمیل ہو گئی ۔

لفظ خاتم کے حوالہ سے مرزائیوں کے مغالطات کارد:

یہاں پر مرزائی جو مغالطات دے کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مناسب مقام سے تکمیل عنوان کی غرض سے انکار کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے، تو لیجئے پڑھئے۔

مغالطہ نمبرا (خاتم النبيين بمعنى افضل النبيين ہے ) کارد:

ایک مغالطہ وہ یہ دیتے ہیں کہ آیت میں خاتم النبيين بمعنی افضل النبیین ہے جیسے مختلف علمی شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین علوم کو مثلاً خاتم المفسرين، خاتم المحققين ، خاتم المحدثین اور خاتم الفقهاء وغیرہ کہہ دیا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں لیا جاتا کہ ان کے بعد کوئی محدث، مفسر محقق اور فقیہ وغیرہ نہیں ہے کیونکہ یہ خلاف واقعہ ہے بلکہ یہاں خاتم ، افضل کے معنی میں ہے یعنی خاتم المحققين بمعنى افضل المحققين ہے۔ (وغیرہ وغیرہ )

بناء علیہ یہی تفصیل خاتم النبیین میں ہے، معنی ہے افضل النبيين۔

الجواب:

جواباً عرض ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور ﷺ افضل النبيين ہیں۔

نیز یہ کہ آپ کا خاتم النبیین ہونا آپ کی بہت بڑی عظمت و فضیلت ہے جس میں شک کرنے والا پرلے درجے کا بے ایمان ہے لیکن آیت ھذا میں یہ لفظ محض آپ کے آخر النبیین ہونے کے بیان کرنے کے لئے آئے ہیں اس سے انکار کرنے والا بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے کیونکہ قرآن وحدیث کی مسئلہ ھذا کی نصوص صریح کثیرہ کی بنیاد پر اس پر پوری امت کا اجماع حقیقی ہے۔

پس خاتم النبيين بمعنى افضل النبيين لینا بالکل غلط ہی نہیں کفر لواح ہے۔ ابھی تفصیل سے گزرا ہے کہ خاتم میں دو قرائتیں ہیں اور وہ دونوں خاتم النبیین کے آخرالنبیین کے معنی میں ہونے کو بیان کرتی ہیں۔ نیز آیت کی شان نزول اور لکن کے استدراک سے بھی اس معنی کی تعیین ہوتی ہے۔ خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین کے دیگر بیسیوں دلائل بھی اس کا صریکارڈ کرتے ہیں پس یہ مرزائی معنی قطعاً واجب الرد ہے۔ باقی خاتم المحققين وغیرہ کی مثالیں بالکل بے محل ، غیر متعلق اور غلط ہیں کیونکہ

اولاً :

بحث خاتم النبیین وغیرہ علماء میں نہیں جن کے سلسلوں کا تاقیامت جاری رہنا قطعیات سے ہے بلکہ خاتم النبیین میں ہے کہ جن کے بعد بعثت انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ قطعی طور پر ہے ہی نہیں۔

ثانیا :

پھر بحث کلام الہی میں وارد ” خاتم النبیین“ کے الفاظ میں ہے جب کہ خاتم المحققین وغیرہ کے لفظ کلام مخلوق سے ہیں۔ ایک فرد خلق کے کلام کی تشریح دوسرے افراد خلق کے کلام کی تشریح کرنا اور وہ بھی مراد الہی کو متعین کرنے کے لئے ، کوئی عقل کی بات نہیں ہے اور یہ ایسے ہو گا کہ جیسے کوئی کہے کہ چونکہ فلاں لفظ کو اس معنی میں لیتے ہیں اس لئے قرآن میں بھی وہ لفظ اسی معنی میں ہے جسے کوئی احمق صحیح نہیں کہہ سکتا چہ جائیکہ کوئی ذی عقل اسے درست مان لے۔

چنانچہ عام لوگ جب قرآن کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے عموماً مصحف شریف مراد لیا جاتا ہے جب کہ قرآن مجید یہ کلام الہی کے لئے آیا ہے جو اللہ کی صفت ہے۔

بناء علیہ جیسے عام بولی کی بنیاد پر ہر جگہ قرآن سے مصحف مراد نہیں لیا جا سکتا اسی طرحخاتم المحققين بمعنى افضل المحققین لینے کی بنیاد پر خاتم النبیین میں خاتم بمعنى افضل لینا بھی انتہاء درجے کی بے عقلی ہے۔


ثالثاً :

اس سے قطع نظر خاتم المحققین وغیرہ کا ایک اور معنی بھی ہو سکتا ہے یعنی اپنی نوعیت کا آخری محقق وغیرہ ( جو محض قائل کے علم و مطالعہ کی حد تک ہے ) ۔

بناء عليه خاتم المحققين وغیرہ بھی مرزائیوں کو کچھ مفید نہیں ہیں کیونکہ اب خاتم النبيين کا مطلب ہوگا وہ نبی جو سب نبیوں سے آخری ہونے کے ناطے سے سب سے بڑی شان والے ہیں ، پس اس واویلا کا ان کو کچھ فائدہ نہ ہوا۔

جلا کر راکھ نہ کر دوں تو داغ نام ہی نہیں


رابعاً:

اس سب سے بھی قطع نظر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ خاتم النبیین بمعنی افضل النبیین ہے تو بھی اس سے یہ تو ثابت نہیں ہو جائے گا کہ کذاب مرزا قادیانی ، نبی ہے کیونکہ نہ تو یہ آیت کے کسی لفظ کا ترجمہ ہے اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے اور نہ ہی یہ اس کا مقتضا ہے۔ خلاصہ یہ کہ خاتم النبيين بمعنی افضل النبيين لينا عقلاً، نقلاً ، اصولاً اور الزاما وتحقيقنا ہر حوالہ سے باطل ہے۔

میرے مرشد کریم حضرت غزالی زماں سیدی علامہ کاظمی قدس سرہ العزیز نے فرمایا کہ ایک بستی میں مولوی انور شاہ کشمیری کے شاگرد مولوی ... عالم میرٹھی ( مؤلف فیض الباری) کے خلاف کا مرزائیوں سے مناظرہ ہوا ، مرزائیوں نے خاتم النببين بمعنى آخر النبيين . ہی خاتم المحققین وغیرہ کی مثال پیش کرتے ہوئے ان کے مکتب فکر کی مولویوں کی طرف سے اپنے مولویوں کے بارے میں اس طرح الفاظ دکھائے اور سوال کیا کہ اگر خاتم کا معنی آخری ہے تو اعلان کرو اور لکھ کر دو کہ ان کے مرنے کے بعد سب جہلاء پیدا ہوئے جس پر میرٹھی مذکور سرنگوں ہو گیا۔ نتیجہ پوری بستی مرزائی بن گئی۔ فرمایا دراصل اسے اپنے مولویوں کو بچانے کی فکر لے ڈوبی ۔ اگر وہ اتنا بھی کہ دیتا کہ یہ مخلوق کا کلام ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے پس خالق کے کلام کی تفسیر مخلوق کے کلام سے نہیں کی جاسکتی۔ تو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ اس کے اپنے مولویوں کی تغلیط ہوتی جس سے کچھ فرق نہیں پڑنا تھا (یعنی ویسے کون سے صحیح لکھنے بولنے والے ہیں سعیدی )

اب پڑھئے دوسرے مغالطہ کا رد:

مغالطہ نمبر ۲ ( حضور کی مہر سے نبی بنتے ہیں ) کارد:

بعض مرزائی یہاں یہ کہہ دیتے ہیں کہ آیت کریمہ کے الفاظ خاتم النبیین میں خاتم آلہ ختم اور مہر لگانے کے معنی ہی میں ہے اسی خاتم کا معنی ہے ختم یعنی مہر لگانے والا ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حضور کی شان یہ ہے کہ آپ کی مہر سے نبی بنتے ہیں لہذا مرزا حضور کی مہر سے نبی ہے۔

الجواب:

ابھی شروع بحث میں مدلل طور پر تفصیل سے گزرا ہے کہ ختم“ کا مادہ مہر لگانے کے معنی کے علاوہ کسی چیز کو پایہ اختتام تک پہنچانے کے معنی میں بھی آتا ہے نیز یہ بھی مدللا بیان ہو چکا ہے کہ یہاں مہر لگانے سے مراد بھی اس سلسلہ کا پایہ اختتام کو پہنچانا ہی ہے۔

بناء علیہ یہاں مہر لگانے سے مراد نبی بنانے کی مہر لگانے نہیں بلکہ حضور کے بعد نبوت و بعثت انبیاء کرام علیہم السلام کا سلسلہ نہ ہونے کی مہر لگانا ہے کیونکہ حضور کے بعد نبی بنانے کی مہر لگانے کے معنی سے ختم کے دونوں معانی آپس میں متصادم ہو جائیں گے جب کہ قرآن اس سے قطعاً پاک ہے کہ اس میں تعارض ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدَ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا 4
یعنی اگر یہ قرآن اللہ کا کلام نہ ہوتا تو اس میں کثرت سے دو دو باتیں ہوتیں جو آپس میں ٹکرانے والی اور متعارض ہوتیں ۔

ملاحظہ ہو : ( پ ۵ النساء، آیت ۸۲)

اس کی مزید دلیل وہ متواتر احادیث بھی ہیں جن میں صراحت کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ میں اس معنی میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد نبوت و بعثت نہیں نیز یہ کہ جو اس کا مدعی ہو وہ دجال اور کذاب ہے ، نیز اجماع امت بھی اس کی دلیل ہے۔

تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین کی خصوصیت کے ساتھ دلیل نمبر ۱۷، ۱۸، ۳۹

خلاصہ یہ کہ اس میں نبی بنانے کی مہر لگانا مراد نہیں بلکہ حضور کے بعد سلسلہ نبوت نہ ہونے کی مہر لگانا ہے۔

اس سے قطع نظر بر تقدیر تسلیم نبی بنانے کی مہر لگانا بھی مراد لیا جائے تو بھی مرزائیوں کو اس کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ اس صورت میں زمانہ قبل تخلیق آدم علیہ السلام کے عالم میں مہر لگانا مراد ہوگا کہ جتنے نبی اس دنیا میں مبعوث ہوئے وہ اسی عالم ہی سے نبی بن کر آئے یہاں آکر نبی نہیں ہے ۔ بالفاظ دیگر نبی ہونے کی مہر انہیں اسی عالم میں لگائی گئی ، اس دنیا میں آنے کے بعد نہیں جس کی مکمل بحث مع ما له و ما علیہ فقیر کی کتاب تنبیہات بجواب تحقیقات جلد اول میں دیکھی جاسکتی ہے۔

خاتم پڑھنے کی صورت میں مہر لگا نا فعل الہی ہو گا جب کہ خاتم پڑھنے کی صورت میں مہر لگانا عمل نبی ﷺ ہوگا یعنی مہر یا تو اللہ نے لگائی ہوگی یا نبیﷺنے۔

دونوں صورت میں یہ عالم غیب کا امر ہے جس کے لئے ڈھکوسلے اور اٹکل پچو سے کام نہیں چلتا بلکہ قرآن وحدیث ہی کام دیتے ہیں۔

پس مرزا کو بھی اگر نبی بننے کی مہر لگی تھی تو بتائیے کس نے لگائی تھی ؟ اللہ نے یا سرکار ملی ایم نے؟ پھر اس کا بیان کسی صریح آیت یا کسی صریح حدیث میں ہے؟ فَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ

البتہ مرزا کے اس دعوئی میں سخت جھوٹے اور باطل ہونے کے بے شمار ٹھوس دلائل موجود ہیں جو آئندہ صفحات میں خصوصی عنوان کے تحت دیکھے جا سکتے ہیں۔

فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ 5

اب پڑھئے دیگر مغالطات مرزائیہ کارد:

مغالطہ نمبر ۳ ( آیت میں محض نبوت اصلیہ و حقیقیہ مراد ہے ) کارد :

کچھ مرزائی یہاں یہ کہ دیتے ہیں کہ اس آیت میں جس نبوت کا ذکر ہے وہ اصلی اور حقیقی ہے جبکہ ان کے مرزا کی نبوت ظلی ، بروزی اور تبعی ہے جو حضور ﷺکی کامل اتباع سے ہے اس لئے یہ آیت ان کے خلاف نہیں ۔

الجواب:

آیت کے الفاظ ”خاتم النبیین“ میں النبین جمع سالم، معرف باللام واقع ہے جبکہ ایسی جمع سالم جمع کثرت اور اس کی الف لام مفید استغراق ہوتی ہے ۔بناء عليه بغير من تعيينه معنی یہ ہوگا کہ حضور بالا استثناء ہر قسم کے نبی کے خاتم اور خاتم ہیں ۔ صلی اللہ تعالیٰ عليه وعلى اله وصحبه وبارك وسلم

علاوہ ازیں وہ احادیث صحیحہ کثیرہ بھی ظلی ، بروزی اور تبعی نبی کی نفی کی دلیل ہیں جنہیں آپ پی ایم نے اپنے کئی کامل واکمل قسم کے متبعین ومقربین سے نبوت کی نفی فرمائی مثلاً حضرت مولائے کائنات شیر خدا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے آپﷺکا یہ ارشاد کہ:

انتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ بَعْدِى نَبِيٌّ
یعنی پیارے علی ! تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ھارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی فرق یہ ہے کہ ہارون علیہ السلام نبی تھے جبکہ تم نبی نہیں ہو کیونکہ میرے بعد کس قسم کا کوئی بھی نیا ہی نہیں ہے۔

مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو دلیل نمبر ۳۲۔

اقول:

یہ حدیث پوری صحاح ستہ کے علاوہ مسند احمد ، مصنف ابن ابی شیبہ، مستدرک حاکم، طبرانی، مسند بزار اور ابونعیم وغیرھا میں موجود ہے اور ہے بھی متواتر کیونکہ کم و بیش سترہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ بناء علیہ اس کا مضمون نظم الثبوت ہے نیز یہ قطعی الدلالہ بھی ہے۔ پس یہ ہمارے موقف کی عمدہ دلیل ہے۔

اس کی ایک مثال آپﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے :

لَوْ كَانَ بَعْدِى نَبِي لَكَانَ عُمر (رواه الترمذى واحمد والحاكم سعيد الحذرى والطبراني وابو يعلى وغيرهم عن عقبة وابن عمرو الى سعيدوغيرهم رضى الله تعالى عنهم)
یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا ۔

تفصیل کے لئے دیکھئے دلیل ۳۳۔

یہ حدیث اپنے اس منطوق میں صریح اور اپنے اس مفہوم میں واضح ہے کہ حضور کے بعد ظلی ، بروزی اور تبھی نبوت کا بھی کوئی تصور نہیں ہے۔

پھر جب حضرت فاروق اعظم اور حضرت شیر خدا جیسی ہستیاں حضور کے اتباع کامل کے باوجود نبی نہیں ہیں تو قادیانی میں کون سی ایسی خصوصیات تھی جس سے وہ ان اکابر کو پیچھے چھوڑ گیا۔

علاوہ ازیں مرزائی پورا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر کے کوئی ایک ایسی صریح آیت یا صحیح صریح حدیث پیش نہیں کر سکتے جس میں حضور سید عالمﷺ کے بعد ایسی نبوت یا ایسے نبی کے ہونے کا ذکر ہو لہذا یہ دعوی ہی سرے سے بے بنیاد ہے یعنی ظامی بروزی تبعی نبی کے عنوانات ہی من گھڑت نہیں۔ پھر بر تقدیر تسلیم اور برسبیل تنزل ( کہ آیت میں نبوت اصلیہ ہے نیز یہ کہ نبوت تبعیہ بھی کوئی چین ہے) یہ تو پھر بھی ثابت نہیں ہوگا کہ قادیانی ظلی نبی ہے۔ پس یہ ساری کہانی ہی کذب اور جھوٹ پر مبنی ہے۔

نوٹ:

ہر قسم کی نبوت نہ ہونے کے لیے مزید پڑھیئے دلیل ۲۲۔

مغالطہ نمبر ۴ ( آیت میں نبوت تشریعہ مراد ہے ) کارد:

بعض مرزائی یہ کہہ دیتے ہیں کہ آیت میں نبوت تشریعہ کی نفی ہے یعنی شریعت والی نبوت جبکہ ان کے مرزا کی نبوت غیر تشریعیہ ہے جبکہ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اور امام شعرانی جیسے اکابر صوفیاء کرام سے ثابت ہے کہ نبوت غیر تشریعیہ باقی ہے۔

الجواب :

آیت کریمہ :

وَ لكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ

مطلق اور عام ہے جو اپنے اطلاق اور عموم کے حوالہ سے نبوت تشریعیہ ، غیر تشریعیہ دونوں کا حاوی ہے جبکہ علیحدہ بھی کوئی ایسی صریح آیت نہیں اور نہ ہی ایسی صحیح صریح مرفوع حدیث ہے جس میں نبوت کی ان دو قسموں یا اس تقسیم کا ذکر ہو ایسی آیت یا حدیث ہوتی تو مرزائی اسے تو پیش کرتے ۔ اب بھی وہ پیش نہیں کر سکتے ۔ بے شک طبع آزمائی کر کے دیکھ لیں ۔

نہ خنجر اٹھے گا یہ شمشیران سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

بناء علیہ مرزائیوں کا نبوت کی تقسیم کا یہ دعوی ہی بوگس اور بلا دلیل بلکہ خلاف دلیل بھی ہے۔

کوئی نبی ایسا نہیں جو مبعوث ہو اور صاحب شرع نہ ہو یعنی ہر نبی مبعوث شارع بھی ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے:

فَبَعَثَ اللهُ النَّبِيِّنَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ 3
یعنی اللہ تعالیٰ نے ہدایت خلق کے لئے جتنے نبی مبعوث فرمائے ، وہ سب مبشر اور مندر تھے۔

لہذا مرزائیوں کا قادیانی کو نبی مبعوث مان کر اسے غیر تشریعی نبی کہنا اس کا جھوٹا کہنے کے مترادف ہے۔ سبحان اللہ امتی ہوں تو ایسے ہوں ۔

علاوہ ازیں خود مرزائی قادیانی کا بیان ہے کہ وہ نبوت تشریعیہ کا حامل ہوگا تشریعی نبی ہے۔ چنانچہ اس کے لفظ ہیں :۔

یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے؟ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعہ ہو گیا ۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔

ملاحظہ ہو اس کی کتاب ( اربعین ج ۳ ص ۷۰۶ )

مرزا قادیانی کے نبوت تشریعیہ کے مدعی ہونے کی ایک دلیل اس کا یہ بیان بھی ہے کہ اس کے آنے سے شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا جہاد بالسیف کا حکم منسوخ ہو گیا ( ملحضا) ملاحظہ ہو۔

خلاصہ یہ کہ قادیانی اپنے قول و عمل کے مطابق نبوت تشریعیہ کا مدعی تھا جبکہ مرزائی کہتے ہیں کہ وہ نبوت غیر تشریعیہ کا مدعی تھا جس سے مرزائیوں کے اس دعوئی کا غلط ہونا خود قادیانی کے بیان سے واضح ہو گیا بلکہ اس صریح تضاد کی بنیاد پر تابع و متبوع دونوں ایک دوسرے کے نزدیک چھوٹے قرار پائے یعنی قادیانی اپنی امت کے بیان کے مطابق جھوٹا ہوا اور اس کی امت قادیانی کے حسب بیان جھوٹی ہوئی ۔

رہا حضرت شیخ اکبر اور امام شعرانی علیہا الرحمۃ کا حوالہ؟

تو امام شعرانی حضرت شیخ اکبر سے ناقل ہیں بناء علیہ یہ حوالہ بنیادی طور پر حضرت شیخ اکبر کا ہوا جبکہ مرزا قادیانی نے حضرت شیخ اکبر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ اس کے نزدیک ملحد اور زندیق ہیں ( معاذ اللہ ) ملاحظہ ہو اس کا رسالہ ( تحریر اور خط ص )

جب مرزائیوں کے اس دعوئی اور نبوت کی اس تقسیم کی بنیاد اس میں حسب زعم اور واحد سہارا حضرت شیخ اکبر کی عبارت تھی اور قادیانی انہیں ملحد وزندیق کہتے ہیں تو اس سے نہ صرف یہ کہ ان کا دعوی باطل قرار پایا بلکہ مرزا قادیانی اپنی امت کے نزدیک ایک ولی اللہ کو محد و زندیق کہنے کے ناطے سے اور اس کی امت ایک ملحد و زندیق کی عبارت کو دلیل بنانے کے حوالہ سے خود ہی ملحد اور زندیق ہو گئے ۔ سبحان اللہ ۔

باقی حضرت شیخ اکبر کا پیش کردہ حوالہ ہم پر الزاماً بھی پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے یہ کہا اور لکھا ہی نہیں ہے کہ حضور سید عالم صلی علیم کی بعثت کے بعد تشریعی نبوت تو ختم ہوگئی البتہ غیر تشریعی جاری ہے اور کوئی بھی شخص غیر تشریعی نبی نہیں بن سکتا ہے یہ ان پر مرزائیوں کا صریح جھوٹ ہے۔

انہوں نے یہ بات محض حضور ﷺکے حوالہ سے لکھی ہے کہ آپ کی نبوت غیر تشریعیہ تا قیام قیامت جاری ہے جس سے مراد کسی نئے شرعی حکم کے آنے سے ہٹ کر آپ کے روحانی فیوض و برکات ہیں۔

ملاحظہ ہو (اليواقيت والجواهر للامام الشعراني ج ص طبع بحواله فتوحات مكيه للشيخ الأكبر)

الغرض مرزائیوں نے اس حوالہ سے صوفیاء کرام خصوصاً حضرت شیخ اکبر اور امام . شعرانی پر سخت افتراء کرتے ہوئے شدید کذب بیانی کی ہے جو ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے قبیل سے ہے کیونکہ مرزائیوں کے بابا، حضرت شیخ اکبر کو معاذ اللہ محد وزندیق لکھ چکے ہیں۔

پھر بھی نہ مانیں تو حضرت شیخ اکبر رضی اللہ عنہ کا یہ دوٹوک فیصلہ بھی ساتھ ملا لیں ، طبیعت صاف ہو جائے گی ۔ آپ فرماتے ہیں جو یہ دعویٰ کرے اللہ کی طرف سے اس پر امر و نہی والی وحی آتی ہے تو وہ واجب القتل ہے۔

ملاحظہ ہو (اليواقيت والجواهر ج ص للامام الشعرانی بحواله فتوحات مكيه للشيخ الأكبر)

اور سطور بالا میں قادیانی کی کتاب اربعین سے یہ بھی نقل کیا جا چکا ہے کہ وہ ن صرف یہ کہ وہ امر و نہی والی وحی کا مدعی تھا بلکہ اس نے اپنے لئے صاحب شریعت کے لفظ بھی استعمال کیے ہیں ۔

لہٰذا حضرت شیخ اکبر اور امام شعرانی رحمہما اللہ ( جن کی عبارات کو مرزائی اپنی دلیل کے طور پر لائے ہیں ) کے نزدیک مرزا قادیانی اور اس کے معتقدین واجب القتل ہیں۔

اب مرزائی بتائیں کہ وہ ان بزرگوں کو مانتے ہیں یا نہیں؟ بصورت نفی ان کی پیش کردہ عبارات کو بطور دلیل لانا بے کار ہوا۔ اور تصورات اثبات جان بھی گئی۔

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

نوٹ:

اس بحث کی مکمل تفصیل مع مالہ وما علیہ کے لئے ملاحظہ ہو حضرت غزالی زمان علیہ الرحمۃ والرضوان کا رسالہ مبارکہ ختم نبوت، مشمولہ مقالات کاظمی ج ص طبع

دلیل نمبر ۴ یا ۱۶ (خاتم النبيين بمعنى آخر النبيين الله تعالیٰ سے )

قرآن مجید، کتب سماویہ اور احادیث قدسیہ سے اس سلسلہ کے کچھ ارشادات الہیہ حسب ذیل ہیں جن سے یہ امر روز روزشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ خود صاحب کلام مجید جل مجدہ الکریم کا اپنا بیان بھی یہی ہے کہ اس نے جو اپنے حبیب کو خاتم النبین فرمایا ہے ، وہ آخر النبین کے ہی معنی میں ہے جو تفسیر کا سب سے پہلا درجہ ہے جس کے بعد اصولاً کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں رہتی ۔ تو لیجئے پڑھیئے تفصیل

دلیل نمبر ۴ (ثُمَّ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ : اللہ تعالیٰ نے

ایک اور جہان میں ، اس دنیا میں بھیجے جانے والے تمام انبیاء ورسل کرام علیہم السلام کو جمع کر کے ان سے حضور سید عالم ﷺ کے متعلق کئی عہد لئے اور حضور کے بارے میں یہ لفظ ارشاد فرمائے :۔

ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ 6

، پھر آجائے تمہارے پاس ایک بڑی عظمت والا پیغمبر

جو ایک تفسیر پر فسیر پر ہے اس مضمون ، منطوق اور مفہوم میں نہایت درجہ والے ۔ اور مفہوم میں نہایت درجہ واضح ہے کہ پچھلے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد ایک ہی رسول باقی تھے جو حضور ہیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔

پس یہ الفاظ قرآن، خاتم النبین بمعنی آخر النبین کی زبردست دلیل ہیں۔ اس کی تفصیل دلیل ۳۷ کے تحت بھی آرہی ہے۔

دلیل نمبر ۵: (وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ) ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پچھلے انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے آخری اور حضور سید عالم ﷺسے پہلے آنے والے برگزیدہ نبی حضرت عیسی علیہ السلام نے میرے حکم سے اس وقت کے لوگوں کو بتایا :

وَ مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ تَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ،

یعنی یہ بیان کرنا بھی میرے فرائض کا حصہ ہے کہ میں تمہیں اس بات کی کی خوشخبری سناؤں کہ میرے بعد ایک پیغمبر نے تشریف لانا ہے جو بڑی عظمت والے ہیں جن کا ایک اسم کریم احمد ہے۔

ملاحظہ ہو (پ ۲۸ الصف آیت ۶ )

یہ آیت اپنے اس مضمون میں بہت واضح ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد صرف ایک رسول کی گنجائش تھی جو سر کار ہیں ملی لی ہے۔ یہ بھی مانحن فیه کی دلیل ہے۔

دلیل نمبر ۶/۷ ( آدم علیہ السلام سے فرمایا :

اللہ تعالیٰ نے حضور کے متعلق آدم علیہ السلام سے فرمایا:

هُوَ آخَرُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ
یہ تیری اولاد سے میرے تمام نبیوں میں سے آخری نبی ہیں۔

ملاحظہ ہو :(ختم النبوۃ ، ص ۸ تالیف ...... اعلیٰ حضرت بحوالہ معجم كبر طبراني عن امير المؤمنين الفاروق الاعظم رضي الله عنه مرفوعاً)

ایک اور روایت میں اس طرح ہے:

هَذَا ابْنُكَ أَحْمَد هُوَ الْأَوَّلُ وَهُوَ الْآخِرِ
یہ آپ کا بیٹا ہے جس کا نام احمد ہے۔ یہ اول بھی ہے اور یہ آخر بھی ہے ۔

(ختم النبوة ص ۹ بحواله ابن عساکر ابی هریره رضی الله عنه مرفوعاً)

دلیل نمبر ۸ ( آدم علیہ السلام کی کندھوں کے درمیان کی تحریر )

حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان قلم قدرت سے یہ لکھا ہوا تھا مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ خَاتَمُ النَّبين محمد اللہ کا رسول ہے اور سب نبیوں میں آخری نبی مبعوث ﷺ

ملاحظہ ہو (ختم النبوة ص ٩ بحواله ابن عساكر عن جابر رضي الله عنه مرفوعاً)

اقول:

ظاہر ہے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے تحریر تھے جس سے مانحن فیه پر روشنی پڑتی ہے۔

دلیل نمبر ۹ ( حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ارشاد ہے ):

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں میں حضور کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی تھا :

حَتَّى يَأْتِيَ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ
آپ کی اولاد سے نبی امی آئیں گے جو میرے نبیوں میں سب سے آخری نبی ہوں گے۔

ملاحظہ ہو ( ختم النبوة ص ۱۰ عن عامر الشعبي رضى الله تعالى عنه)

دلیل نمبر ۱۰ ( حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ارشاد )

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی تو رات میں ایسی امت کا ذکر پاتا ہوں جو زمانے میں سب سے پچھلی اور مرتبے میں سب سے پہلی ہے، اسے میری امت بنا دے۔

فرمایا: تِلْكَ أُمَّةٌ أحمد . یہ میرے محبوب احمد کی امت ہے (ﷺ)

ملاحظہ ہو (ختم النبوة ص ۸ ، ص ۹ بحواله ابو نعيم عن ابي هريره رضى الله عنه مرفوعاً)

اس سے ملتے جلتے الفاظ حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں (ص ۱۰ بحواله مصنف ابن ابی شیبه)

دلیل نمبر 11 ( حضرت یعقوب علیہ السلام سے ارشاد )

: اللہ تعالیٰ حضرت یعقوب علیہ السلام سے فرمائی گئی اپنی وحی میں حضور کے متعلق فرمایا :

وَهُوَ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَاسْمُهُ أَحْمَد (ص۱۰)
آپ سب نبیوں سے آخری نبی ہوں گے آپ کا ایک نام احمد ہے۔

دلیل نمبر ۱۲ ( حضرت شعیب علیہ السلام سے ارشاد)

اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کی طرف بھیجی ہوئی اپنی وحی میں حضور کے متعلق فرمایا میں ان کی امت کو تمام امتوں سے افضل بناؤں گا :

اخْتِمُ بِكِتَابِهِمُ الْكُتُبَ وَبِشَرِيعَتِهِمُ الشَّرَائِعَ وَبِدِينِهِمُ الْأَدْيَانَ
یعنی ان کی کتاب آخری ہو گی ، ان کی شریعت بھی آخری شریعت ہوگی اور ان کا دین بھی آخری۔

ملاحظہ ہو (ص ۱۰ ، ص ۱۱ بحواله ابن ابی حاتم عن وهب بن منبه رضی الله عنه)

دلیل نمبر ۱۳ ( کتب سماویہ میں اس کا ذکر )

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ کتب سماویہ میں حضور کے اسماء گرامی تھے جن میں ایک اسم کریم تھا مقفی ، یعنی سب نبیوں کے بعد تشریف لانے والا ۔

ملاحظہ ہو ( ص ۱۱ بحواله ابن عساکر)

دلیل نمبر ۱۴ ( حضرت جبریل علیہ السلام کے حوالہ سے )

حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور کی خدمت میں آکر عرض کی :

إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ قَدْ خَتْمُتُ بِكَ الْأَنْبِيَاءَ
آپ کا رب فرماتا ہے میں نے نبیوں کا سلسلہ آپ پر ختم کیا ہے یعنی آپ ان سب سے آخری ہو۔

ملاحظہ ہو (ص ۱۱)

دلیل نمبر ۱۵ ( حضور ﷺ سے بلا واسطہ ارشاد)

حضور ﷺفرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے شب معراج مجھ سے فرمایا:

هَلْ عَمَّكَ أَنْ جَعَلْتُكَ آخِرَ النَّبِيِّنَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ أُمَّتَكَ أَنْ جَعَلْتُهُمْ آخِرَ الْأُمَمِ قُلْتَ لَا قَالَ أُمَّتَكَ أَنِّي جَعَلْتُهُمْ آخِرَ الْأُمَمِ
یعنی محبوب ! آپ کو یہ بات بری تو نہیں لگی کہ میں نے آپ کو ” آخر النبین (سب سے آخری نبی ) بنایا ؟ ۔ میں نے عرض کی نہیں ۔ فرمایا کیا آپ کی امت کو تو یہ برا نہیں لگا کہ میں نے ان کو آخر الامم ( سب امتوں سے آخری امت ) بنایا ؟ میں نے کہا: نہیں ۔ فرمایا آپ اپنی امت کو بتا دیں کہ میں نے انہیں آخر الامم بنایا ہے۔

ملاحظہ ہو (ص ۱۱ بحواله خطيب بغدادى عن انس رضى الله عنه)

ایک اور روایت میں یہ مضمون اس طرح ہے :

جَعَلْتُكَ أَوَّلَ النَّبِينَ خَلْقاً وَآخِرَهُمْ بَعْثًا وَجَعَلْتُكَ فَاتِحا وَخَاتِماً
میں نے آپ کو سب سے پہلے پیدا کر کے آپ کو نبوت دی اور بھیجنےمیں سب سے آخری بنایا اور آپ کو فاتح اور خاتم بنایا یعنی نبوت کا آغاز بھی آپ سے کیا اور اس کا اختتام بھی آپ پر فرمایا ۔

ملاحظہ ہو ( ص ۱۲ - ۱۳- بحواله ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویه، بزار، ابو يعلى، بيهقي عن ابي هریره رضی الله عنه مرفوعاً)

اقول:

اس حدیث قدسی میں ”آخر النبین“ کی صراحت موجود ہے جو ما نحن فیه کی دوٹوک دلیل اور اس امر کا بین ثبوت ہے کہ آیت خاتم النبیین میں اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین سے آخر النبیین ہی مراد لیا ہے جس کے بعد اصولی طور پر مزید کسی دلیل کی حاجت باقی نہیں رہتی پھر بھی تحمیل عنوان کی غرض سے مزید اطمینان قلبی کے لئے اور سونے پر سہاگہ کے طور پر دیگر دلائل بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔ تو پڑھیے ۔

دلیل نمبر ۱۶ (خاتم النبيين بمعنى آخر النبیین کا ثبوت صاحب قرآن ﷺ سے )

بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضور سرور کونین صلی علیم نے بھی مختلف طرق بیان سے خاتم النبیین کا معنی "آخر النبیین کیا۔ بالفاظ دیگر اس کی تفسیر میں یہی بتایا گیا کہ خاتم النبیین سے اللہ تعالیٰ کی مراد آخر النبیین ہی ہے اور یہ تفسیر کا درجہ ثانیہ ہے۔ بعض ارشادات حسب ذیل ہیں۔

دلیل نمبر ۱۷ ( حدیث مَثَلِی وَمَثَلُ الَّا نُبِيَاءِ كَفَصُرٍ )

سید عالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی اور میری مثال ایسے ہے جیسے ایک محل ہو جس کی عمارت ہر حوالہ سے مضبوط ، مکمل اور خوبصورت ہو (احْكِمَ اكْمِلَ، احْسِنَ بنيانة ( البتہ اس میں صرف ایک اینٹ کی جگہ خالی ہو۔ دیکھنے والے اس کے کمال فن تعمیر کو دیکھ کر دنگ رہ جائیں۔ ہاں اس خالی جگہ کو دیکھ کر کہیں اس میں کمی ہے تو بس یہی ہے کہ اس میں ایک اینٹ نہیں ہے۔

فرمایا وہ اینٹ میں ہوں اس خالی جگہ کو میں نے ہی پر کیا " وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّنَ لَو نبی بعدی کہ سب نبیوں میں آخری نبی جو میں ہوں جس کے بعد کسی اور نبی کی گنجائش نہیں (یعنی ہر نبی کی مثال اس محل کی ایک ایک اینٹ کی ہے اور میری مثال اس اینٹ کی ہے جو اس کی ( اینٹ جتنی ) خالی جگہ میں سب سے آخر میں رکھی جائے )

ملاحظہ ہو ( ص ۳۹ بحواله صحیح بخاری ، صحیح مسلم، ترمذی، مسند احمد عن جابر نیز صحیح بخاری و مسلم عن ابي هريره - مسند احمد ومسلم عن ابي سعيد الحذرى - مسند احمد و ترمذى عن ابي بن كعب رضى الله عنهم اجمعين مرفوعاً ) مشكوة عربي ص ٥١١ متفق عليه)

اقول :

یہ اعلیٰ درجہ کی صحیح حدیث مسئلہ ہذا میں ہر حوالہ سے فیصلہ کن اور حق و باطل میں حظ فاصل ہے اور مسئلہ کی ایک ایک شق میں عبارۃ النص ہے بار بار پڑھیے اور اپنے نبی کی عظمت کے جھنڈے بلند کرتے ہوئے اسے تابوت مرزائیت میں آخری کیل کے طور پر استعمال کیجئے۔

حضرت غزالی زماں کا مرزائیوں سے ایک پُر لطف مناظرہ:

اس حدیث کے حوالہ سے مرزائیوں کے ساتھ ہمارے مرشد کریم غزالی زماں رازی دوراں امام اہل سنت صدیغیم اسلام حضرت قبلہ مولانا علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی نور اللہ مرقدہ الکریم و قدس سرہ العزیز کا ایک پُر لطف مناظرہ ہے جس کا ذکر بہت موزوں و مناسب مقام ہے۔

مختصر خلاصہ یہ ہے کہ قادنیوں نے مناظرہ میں آپ سے کہا: شاہ صاحب! کسی طویل اور لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ اپنے دعوئی کے مطابق صرف ایک ٹھوس دلیل پیش کر دیں اور اپنا موقف ہمیں سمجھا دیں بس ۔ حضرت نے یہی حدیث پیش کی اور فرمایا سلسلہ نبوت کی ایک کڑی اور قصر نبوت کی ایک تکمیلی اینٹ باقی تھی، حضور ہی باقی تھے آپ کے بعد مزید کوئی نبی ہے ہی نہیں جس میں سرکا مئی الیوم نے اپنے خاتم النبین ہونے کا معنی بھی ” لا نبی بعدی“ سے بیان فرمایا ہے۔ لہذا قا دیانی اپنے دعویٰ نبوت میں قطعی طور پر کا ذب ہے اور یہ تمہارے حسب طلب ایسی دلیل ہے جس کے بعد مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں ہے۔

مرزائیوں نے کہا شاہ صاحب حضور کی مثال باقی ماندہ اینٹ کی ہے، اینٹ پر پلاستر بھی کیا جاتا ہے پھر پلاستر پر پینٹ ( رنگ و روغن ) بھی تو کیا جاتا ہے لہذا ہمارے مرزا کو پلاسٹر یا پینٹ کے طور پر رکھ لیجئے۔

حضرت نے برجستہ اور فی البدیہہ فرمایا اس محل کی تین صفات آئی ہیں مضبوط مکمل اور خوبصورت ۔

خالی جگہ پر کرنے سے تکمیل ہو گئی۔ پلاستر اس کی مضبوطی میں آگیا پینٹ کا مفہوم اس کی خوبصورتی سے ادا ہو گیا۔

بناء بریں مرزا قادیانی کا وہ اینٹ نہ ہونا خود تمہیں تسلیم ہے، وہ پلاستر اور پینٹ کا کام بھی نہیں دے سکتا کیونکہ وہ عمارت ان خوبیوں سے پہلے ہی سے آراستہ اور پیراستہ ہے۔ پس مرزا قادیانی ایک بے کار چیز کا نام ہے۔

اس پر وہ دم بخود ہو گئے اور منہ دیکھتے رہ گئے ۔ سبحان اللہ کس قدر خوب استدلال ہے۔ فرحمة الله رحمة واسعة واسعة كاملة كاملة

دلیل نمبر ۱۸ ( حدیث کہ آپ کے بعد نبوت کا مدعی دجال و کذاب ہے ):

ارشاد فرمایا:

سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ دَجَّالُونَ تَلْقُونَ كُلُّهُمْ يَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي
یعنی میری امت کہلانے والوں میں تمیں شخص ایسے آئیں گے جو مدعی نبوت ہوں گے وہ دجال اور کذاب ہوں گے جو اپنے دعوئی کے حوالہ سے بہت دجلی اور کذب سے کام لیں گے ان کے دجال و کذاب ہونے کو سمجھنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ میں خاتم النبین ہوں جس کا معنی یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ۔

ملاحظہ ہو ( ص ٤٥-٧٤ بحواله صحيح بخاري ومسلم ومسند احمد و ترمذی و ابودائود و ابن ماجه عن ابي هريره وثوبان وحذيفه رضى الله عنهم)

اقول :

یہ حدیث بھی خاتم النبيين بمعنى آخر النبیین ہونے کی جامع دلیل ہے کہ آپﷺ نے اس کا یہی معنی لا نبی بعدِی“ سے فرمایا مزید یہ کہ اپنے بعد کے مدعی نبوت کو دجال و کذاب قرار دیا۔

دلیل نمبر ۱۹ ( حدیث کہ ختم نبوت آپ سمی ایام کا خاصہ ہے ):

ارشاد فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے چھ چیزیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی بھی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ انہیں ایک یہ بیان فرمائی

وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ (ص ۳۷ بحوالہ صحيح مسلم عن ابي هريره رضى الله عنه)
نبیوں کی تکمیل مجھ سے فرمائی ۔

اقول:

اگر آپ کے بعد کوئی نبی ہو تو خاتم النبیین ہونا آپ کی خصوصیات نہیں رہے گا جبکہ خاصہ ہوتا ہی یہی ہے کہ "مَا يُوجَدُ فِيهِ وَلَا يُوجَدُ فِي غَيْرِهِ جوس میں ہو تو اس کے علاوہ کسی اور میں نہ ہو۔

بناء علیہ یہ حدیث بھی خاتم النبيين بمعنى آخر النبیین ہونے کی محکم دلیل ہے۔

دلیل نمبر ۲۰ ( حدیث آخر هم محمد ﷺ)

ارشاد فرمایا:

أَوَّلُ الرُّسُلِ آدَمُ عليه السلام وَآخِرُهُمُ مُحَمَّد الله (ص ٣٩ بحواله امام حکیم ، ترمذی، عن ابی ذر رضی الله عنه)

یعنی اس دنیا میں بعثت کے اعتبار سے سب سے پہلے پیغمبر آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری محمد ﷺ

اقول:

یہ حدیث اپنے مفہوم میں عبارہ النص اور خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین ہونے کی روشن دلیل ہے جو ”آخر ھم“ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔

.

دلیل نمبر ۲۱ ( حدیث لا نَبِيَّ بَعْدِي )

ارشاد فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت ان کے نبی کرتے تھے جب ایک نبی کی وفات ہو جاتی تو اس کے بعد اور نبی کی بعثت ہو جاتی ۔ میرے بعد اس طرح نہیں ہوگا کیونکہ لا نَبِيَّ بَعْدِی میرے بعد کسی نبی کی بعثت ہے ہی نہیں ۔

ملاحظہ ہو ( ص ٤١ بحواله صحیح بخاری )

اقول :

حدیث هذا اپنے مفہوم میں واضح ہے پہلے یہ روٹین تھی کہ نبی کے بعد نبی آتا تھا میرے بعد میرے نائبین ہوں گے کیونکہ میرے بعد کوئی نبی ہے ہی نہیں ۔

دلیل نمبر ۲۲ ( حديث إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبْتُوهَ قَدِ انْقَطَعَتْ )

ارشاد فرمایا:

إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنَّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتُ فَلَا رَسُولَ بَعْدِى وَلَا نَبِيَّ
یعنی میری تشریف آوری سے نبوت ورسالت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے لہذا میرے بعد نہ تو کسی نبی کی بعثت ہوگی نہ کسی رسول کی ۔

ملاحظہ ہو ( ص ٤١-٤٢ بحواله مسند احمد، ترمذى ومستدرك حاكم عن انس رضی الله عنه)

اقول :

نبی کے لئے وحی نبوت شرط ہوتی ہے جبکہ رسول کے لئے کتاب یا شریعت کا ہونا بھی لازم ہوتا ہے حضور نے اپنے اس ارشاد میں دونوں کی نفی فرمادی ہے جس سے تبھی غیر تبعی ، تشریعی ، غیر تشریعی اور ظلی بروزی ہر قسم کے نبی کی نفی ہو گئی ( علی ما قاله القادیانی ) اور یہ حدیث بھی خاتم النبین بمعنی آخرالدین کے عمدہ دلائل سے ہے۔

دلیل نمبر ۲۳ تا ۲۶ ( حدیث ” ذَهَبَتِ النبوة )

ارشاد فرمایا:

ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِي إِلَّا الْمُبَشِّرَات

یعنی نبوت مکمل ہوئی پس میرے بعد کوئی نبوت نہیں ۔ ہاں اچھے خوابوں کا سلسلہ رہے گا۔

ملاحظہ ہو ( ص ٤٢ بحواله طبراني عن حذيفة بن اسيد مرفوعاً).

۲۴۔ ایک اور روایت میں یہ مضمون اس طرح ہے :

لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ ( ص ٤٢ بحواله صحيح بخاري عن ابي هريره رضى الله عنه)
نبوت باقی نہیں رہی ہاں فیضان نبوت سے بچے اور اچھے خوابوں کا سلسلہ باقی ہے۔

۴۵ ۔ بعض روایات میں یوں ہے :

ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِيَتِ الْمُبَشِّرَاتُ (ص ٤٢ بحواله احمد، ابن ماجه، دیلمی و ابن حبان عن ام كرز)

۲۶۔ بعض میں یہ الفاظ ہیں:

يَايُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِإِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ (ص ٤٢ بحواله مسلم، ابودائود، ابن ماجه عن ابن عباس رضی الله عنهما مرفوعاً)

اقول:

ان احادیث میں آپ میں قیام کے بعد وحی نبوت کے آنے کی صریحا نفی ہے جو ما نحن فيه كی روشن دلیل ہے جو ذهبت النبوة" اور "لم يبق من النبوة“ کے الفاظ سے واضح ہے۔

دلیل ۲۷ ( حدیث کہ عم مکرم پہ ہجرت اور آپ ﷺ پر نبوت ختم ہے ) :

آپ ﷺ کے علم مکرم حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے مکہ المکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا ابھی ٹھہر و آپ سب سے آخر میں ہجرت کیجئے گا کیونکہ

فَإِنَّ اللَّهَ بِخَتِمُ الهَجرَةُ كَمَا خَتَمَ بِيَ النُّبُوَّةِ الله تعالی
اس ہجرت کی تکمیل آپ سے کرنا چاہتا ہے جیسا کہ نبوت کی تکمیل اس نے میرے ذریعہ فرمائی ۔

(ص ٦٩) بحواله ابویعلی، طبرانی شاشی فضائل الصحابة لابي نعيم، ابن عساكر وابن البخار عن سهل بن سعد موصولاً نیز رؤیانی و ابن عساكر عن ابن شهاب مرسلا)

اقول:

حدیث کے لفظ ختم بی النبوة اپنے مفہوم میں صریح ہیں۔ حضرت عباس کے آخری مہاجر مدینہ ہونے کی مثال نے جسے مزید واضح کر دیا ہے۔

دلیل ۲۸ تا ۳۱ ( حضور اقدس صلی الی ایم کے اسماء گرامی میں آخر النبین ہونے کا بیان ):

ار شاد فرمایا:

أَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَةَ نَبِی (ص ۲۳ بحواله بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، مالك، احمد طیالسی، ابن سعد، طبرانی، حاكم، بيهقى وابو نعيم عن جبير بن مطعم رضی الله عنه)
یعنی میرا ایک نام عاقب ہے ( سب سے پیچھے آنے والا ) اور میرا یہ نام اس لئے ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔

اقول :

آپ ﷺکے اس اسم کریم کے نبوت کے لئے مزید ملاحظہ ہو (ص ۳۱ بحواله ابن مردویه، دلائل النبوة ابو نعيم ابن غدی، ابن عساکرو دیلمی عن ابی الطفيل رضی اللہ عنہ فر مایا میرے رب کے ہاں میرے دس نام ہیں پھر انہیں گنواتے ہوئے فرمایا " والْعَاقِبُ، یعنی میرا نام عاقب بھی ہے )

۲۹- ارشاد فرمایا:

انا الْمُقَفی
میں مقفی ہوں یعنی میرا ایک نام یہ بھی ہے ۔ (ص ۳۰، ۳۱ بحولی احمد، ابن سعد، ابن ابی شیبه، تاریخ بخاری و شمائل ترمذی عن حذيفة رضى الله عنه مرفوعاً)

اقول:

مزید حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو (ص ۲۳ بحواله احمد، مسلم و طبرانی عن ابي موسى الاشعرى رضى الله عنه)

صلى الله واللفظ أنا مُحَمَّدٌ وَاحْمَدُ وَالْمُقَفِيِّ الخ )

ثم اقول : اس کا معنی آپ ملی ایم نے خود ہی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

" وَأَنَا الْمُقَفِي قَفَيْتُ النَّبِيِّنَ عَامَّةٌ

یعنی مقفی کا معنی ہے پیچھے آنے والا اور مجھے منتفی اس لئے فرمایا گیا ہے کہ میں تمام نبیوں کے بعد جو ہوں ۔

ملاحظہ ہو ( ص ۳۲ بحواله ابن عدى عن جابر رضي الله عنه مرفوعاً)

۳۰- ارشاد فرمایا:

وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي أَحْشِرُ النَّاسَ عَلَى قَدَمَى (ص ۳۱ بحواله طبرانی و سنن سعيد عن جابر رضي الله عنه)

میرا ایک نام حاشر ہے یہ اس لئے ہے کہ روز محشر تمام لوگوں کو اپنے قدموں میں جمع کروں گا۔

اقول:

آپ کے اس اسم کریم کے ثبوت کے لئے مزید دیکھئے (ص ۲۱ بحوالہ مردودیه، دلائل النبوة لابی نعیم، ابن عدی، ابن عساكر و ديلمي عن أبي الطفيل رضى الله عنه) (واللفظ لي عشرة اسماء........ والحاشر الخ)

علماء اسلام نے الفاظ بالا کی شرح میں فرمایا:

تُحْشَرُونَ عَلَى اثْرِى وَزَمَانِ نُبُوَّتِي وَرِسَالِتُي وَلَيْسَ بَعْدِى نبی

خلاصہ یہ کہ میدان محشر میری ہی تشریف آوری کے بعد آئے گا یعنی قیامت اور میرے درمیان کسی اور نبی مبعوث کا فاصلہ نہیں ہے۔

ملاحظہ ہو ( ص ۳۱ بحواله نودی شرح مسلم، تیسر و جمع الوسائل)

اقول :

اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ صلی الہیم نے اپنی دو انگشتان مبارک کو ملا کر فرمایا: "بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ “ یعنی جیسے ان دو انگلیوں کے درمیان فاصلہ نہیں ہے میرے اور قیامت کے درمیان بھی کسی اور نبی کے آنے کا فاصلہ نہیں ہے۔ (رواہ )

۳۱۔ دلیل نمبر ۲۸ اور ۳۰ کے تحت ابن مردویہ وغیرہ سے نقل کی گئی حدیث میں دو نام مبارک یہ بھی مذکور ہیں :

الْفَاتِحُ وَالْخَاتُم میرے ناموں میں ایک نام فاتح اور ایک اور نام خ خاتم بھی ہے یعنی نبوت کا آغاز بھی مجھ سے ہوا کہ زمانہ قبل تخلیق آدم علیہ السلام میں مجھے نبوت سے متصف فرمایا گیا اور اس کا اختتام بھی مجھ پر ہوا کہ دنیا میں سب سے آخر میں مبعوث کیا گیاہوں۔

نیز دلیل نمبر ۱۶ کے تحت یہ حدیث قدس بھی گزر چکی ہے ” جَعَلْتُكَ فَاتِحاً و خانما، محبوب ! میں نے آپ کو فاتح بھی بنایا خاتم بھی ۔ (حوالہ وہاں دیکھیں )

اقول:

اس با حوالہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضور سید عالم ﷺ کے چار اسماء گرامی ایسے ہیں جو آپ کے خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین ہونے کو بیان کرتے ہیں یعنی عاقب مقفی ، اثر اور خاتمﷺ صاحبھا وسلم اور بھی ہو سکتے ہیں)

لہذا اس مسئلہ کی کوئی اور دلیل نہ بھی ہوتی تو اس کے ثبوت کے لئے آپ کے نام ہی کافی تھے۔

اور یہ امر آج بھی مروج ہے کہ جو چیز بہت عمدہ اور نس نیز پائیدار اور دیر پا ہواس کے لیے اتناہی کہہ دینا کافی سمجھا جاتا ہے کہ اس کا نام ہی کافی ہے۔

پس جب آپ کے نام اتنی شانوں والے ہیں تو ذات برکات کتنی عظمتوں کی حامل ہوگی؟

قال المولوى المعنوی قدس سره
نام احمد چوں چنیں یاری کند

اب پڑھیئے حضور کے خاتم النبیین بمعنى آخر النبیین ہونے کے مزید دلائل۔

دلیل نمبر ۳۲ ( حدیث انتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ )

کم و بیش سترہ (۱۷) صحابه کرام رضی اللہ عنہم سے مروی متواتر حدیث میں ہے آپ ﷺنے حضرت شیر خدا حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:

أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى غَيْرَانَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَى
یعنی کیا آپ اس پر خوش نہیں ہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو موسیٰ علیہ السلام سے ہارون علیہ السلام کو تھی ، فرق یہ ہے کہ ہارون علیہ السلام نبی تھے تم نبی نہیں ہو کیونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں میں آخری ہوں۔

ملاحظہ ہو ( ص ٤٦ بحوالہ صحیح بخاری ، مسلم، ابودائود، ترمذی، نسائی، ابن ماجه، احمد ابن ابی شیبه حاکم طبرانی، بزاز، ابو نعیم وغیرهم)

اقول:

اس حدیث کے الفاظ لا نبی بعدی اتنے مفہوم میں نہایت درجہ واضح ہیں نیز اس کا یہ منشا ہونا بھی ظاہر ہے کہ میرے بعد نبی ہوتا تو علی تم ہو سکتے تھے یعنی اس قدر بڑے رتبے والے ہو کر بھی تم نبی نہیں ہو۔ تو جب شیر ا خدا جیسی ہستیاں بھی نبی نہ ہوں تو قادیانی کسی باغ کی مولی ہے۔

دلیل نمبر ۳۳ ( حدیث لَوْ كَانَ بَعْدِی نِبِی لَكَانَ عُمَرَ ) ایک اور روایت میں 2 ہے:

لو كَانَ بَعْدِى نَبِيُّ لَكَانَ عُمر 3
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا

اقول :

حضرت شیر خدا کے بارے میں تو یہ امر مفہوما تھا ، اس روایت میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں صریحا ہے پس اس میں بھی وہی تفصیل ہے جو ۳۲ میں گزری ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جو مراد نہیں ہیں، حضور کے سر ہیں، مولا علی کے داماد ہیں پوری کائنات میں انبیاء ورسل کرام علیہم السلام اور حضرت صدیق اکبر بر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے اصل او سے افضل اور مقدس ہستی ہیں، وہ تو نبی نہ بن سکیں اور قادیانی جیسا نا معقول شخص نبی ہو جائے علامت قیامت نہیں تو اور کیا ہے؟

دلیل نمبر ۳۴ ( حدیث مسجدی آخر المساجد ):

ارشاد فرمایا:

مَسْجِدِى آخِرُ الْمَسَاجِد
3
یعنی میری مسجد ( مسجد نبوی ) اللہ کے نبی کی مسجد ہونے کے حوالہ سےسب مسجدوں میں بالکل آخری مسجد ہے ۔

اقول:

حدیث اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ میرے بعد قیامت تک نہ کسی نبی مبعوث کی آمد ہوئی ہے اور نہ ہی وہ مسجد بنائے گا اور نہ ہی اس کی مسجد کسی نبی کی مسجد قرار پائے گی جو خاتم النبین بمعنی آخر النبین کی ایک اور اچھوتی دلیل ہے۔

دلیل نمبر ۳۵ ( من كلام النبوة الأولى )ارشاد فرمایا:

إِنَّ مِنْ كَلامِ النُّبُوَّةِ الْأُولَى إِذَا فَاتَكَ الْحَيَاءُ فَافْعَلُ مَا شِئْتَ
یعنی إِذا فَاتَكَ الْحَيَاءُ فَافْعَلُ مَا شِئْت مجھ سے پہلے کی نبوت کے بولوں ں سے ہے (معنی یہ کہ تیرے پاس حیاء نہ رہے تو جو جی میں آئے کر) (رواہ )

اقول :

یہ حدیث بھی خاتم النبین بمعنی آخر النبین کی دلیل ہے کیونکہ ”ولی“ آخر “ کے مقابلہ میں ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِنَّ لَنَا لِلْآخِرَةَ وَالْأُولَى

نيز

وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولى

بناء علیہ حضور کی نبوت بالکل آخری نبوت ہوئی ۔

جس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ حضور کی نبوت کو آخری نہ ماننے والا عدم الحیاء (شرم وحیاء سے عاری اور اس نعمت سے محروم ) ہے پس آپ کو آخر النبین نہ ماننا کسی جہاد کا کام نہیں ہے بلکہ یہ کسی بے جہاد کا ہی کام ہے۔ لہذا انبیاء کرام علیہم السلام کے اس ارشاد پر چلتے ہوئے منکر ختم نبوت ( بمعنی آخری نبوت) کو یہ کہنا لازم ہوا کہ فافعل ما شئت، جس کو زبان فارسی میں یوں بولا جاتا ہے کہ ” بے حیا باش و هر چه خواهی کن‘‘ ( اردو تر جمہ او پر آچکا ہے )۔

نیز یہ کہ منکر ختم نبوت کو بے حیاء کہنا کوئی گالی نہیں بلکہ عین حقیقت کا بیان ہے جیسے چور کو چور اور ڈاکو کوڈا کو کہنا وغیرہ گالی نہیں ہے۔

دلیل نمبر ۳۶ (مدعیان نبوت کے خلاف آپ مالی تعلیم کی عملی کاروائی ):

خاتم النبيين بمعنى آخر النبیین کا بیان اور صریحی ثبوت جس طرح قولی احادیث میں وارد ہے فعلی احادیث سے بھی ملتا ہے۔

دلیل نمبر ۷ ۱ سے ۳۵ تک پیش کی گئی احادیث ، قولی حدیثیں تھیں ۔

اب پڑھیئے فعلی احادیث سے اس کا ثبوت:

اور وہ ہے جھوٹے مدعیان نبوت کے خلاف آپ مالی القیوم کا عملی کاروائی فرمانا۔ جس کی سردست دو مثالیں پیش کی جارہی ہیں جو الگ الگ واقعہ ہونے کی بناء پر ان کی الگ الگ دلیلیں ہیں من حیث المجموع ہم نے اسے ایک دلیل کے طور پر رکھا ہے۔

چنانچہ آپ ﷺ کی ظاہری موجودگی میں دو شخصوں نے جھوٹا دعوی نبوت کیا تھا ایک مسیلمہ یمامی نے دوسراعبھلہ بن کعب المعروف اسود عنسی نے ۔

آپﷺنے ان دونوں کا عملاً رد فرمایا۔

مسیلمہ کے ایک خط کے جواب میں ( جس میں اس نے خود کو رسول اللہ لکھا تھا )

آپ نے اس کو ان لفظوں کے عنوان سے مکتوب گرامی ارسال فرمایا تھا:۔

من محمد رسول الله له الى مسيلمة الكذاب 3
یعنی یہ مکتوب، اللہ کے رسول محمد (صلیالی) کی جانب سے ہے، دعوئی نبوت میں بہت بڑے جھوٹے شخص مسیلمہ کی طرف۔

ملاحظہ ہو (صحیح بخاری ج طبع كراچی البدايه والنهايه ج ص ٥٠،٤٩ بحواله صحیح بخاری طبع بیروت)

نوٹ :

تکمیلی کاروائی کے طور پر مسیلمہ کذاب کی مکمل سرکوبی دور صدیقی میں حضرت امیر المؤمنین صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زیر سایہ حضرات صحابہ و تابعین کرام رضی اللہ عنہم نے فرمائے ، جس کی تفصیل دلیل نمبر ۳۹ کے تحت آرہی ہے۔

جبکہ اسود عنسی سے آپﷺنے جہاد کا حکم صادر فرمایا جس کے نتیجہ میں اسے یمن میں صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین نے واصل جہنم کر دیا اور ظاہری اطلاع پہنچنے سے پہلے آپ ﷺ نے خبر دے دی اور اس کے قاتل کو خوب سراہتے ہوئے فرمایا کہ آج کی رات با برکت گھرانے کے مبارک شخص نے اُسے موت کے گھاٹ اتارا ہے جس کا نام فیروز ہے جو اسم بامسمی ہے۔

چنانچہ البدایہ و النهایہ میں ہے :

وبعث رسول الله الله كتابه حين بلغه خبر الاسود العنسي مع رجل يقال له وبرين يحنسى الديلمي بأمر المسلمين الذين هناك بمقاتلة الأسود العنسى ومعاولته وقام معاذ بن جبل بهذا الكتاب اتم القيام 3

نیز

وقتد اطلعه الله على الخبر من ليلة (الى) الخبر الى النبي الله من السماء الليلة التي قتل فيها العنسي يشرنا فقال قتل العنسي البارحة قتله رجل مبارك من اهل بيت مباركين قيل ومن قال فيروز فيروز 3
یعنی اسود عنسی کے جھوٹے دعوی نبوت کی خبر پہنچتے ہی آپ ﷺو برین یحنس دیلمی نامی صحابی کے ہاتھ وہاں کے مسلمانوں کے نام اپنا مکتوب گرامی روانہ فرمایا جس میں انہیں اسود عنسی سے جہاد کا اور اس کی سرکوبی کرنے کا حکم صادر فرمایا جس کی بھر پور طریقہ سے تعمیل کے لئے قیادت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمائی جو و نہیں پہ مقیم تھے۔جس رات اسود عنسی واصل جہنم ہوا تو آپﷺنے اللہ تعالی کے اس پر مطلع فرمانے سے صحابہ کرام کو اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا اسے ایک مبارک خاندان کے بابرکت آدمی نے مار ڈالا ہے۔ عرض کی گئی اس کا نام کیا ہے؟ فرمایا: فیروز جو واقع میں فیروز ہے۔

ملاحظہ ہو ( ج ۵ ص : ١٤،١٢،۱۱،۱ طبع بیروت)

بہر حال ان کذابوں کے خلاف آپﷺ کی عملی کا روائی بھی خاتم النبین بمعنی آخر النبیین کی زبردست دلیل ہے ۔ اس طرح سے ہمارا مدعا حدیث مرفوع کی تینوں قسموں ( قولی فعلی ، تقریری حدیثوں ) سے ثابت ہوا۔

دلیل نمبر ۳۷ انبیاء ورسل کرام علیہم السلام سے خاتم النبيين بمعنى آخر النبیین کا ثبوت): ابو البشر سید نا حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام سے لے کر حضور نبی کریم صلی اللہ ہم سے پہلے اور باقی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے آخر میں تشریف لانے والے برگزیدہ پیغمبر حضرت کلمۃ اللہ روح اللہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوة والسلام تک تمام حضرات انبیاء کرام در سل کرام علیہم السلام بھی اس امر کے کئی وجوہ سے شاہد ہیں کہ حضور سید عالم ملی ایریم آخر النبیین ہونے کے معنی میں خاتم النبیین ہیں۔

چنانچہ اس دنیا سے پہلے کے جہانوں میں کئی مواقع پر مثلاً انبیاء کرام علیہم السلام کو نبوت عطا فرمائی نیز ان سے میثاق نبوت لینے کے وقت ان سے آپ صلی الہیم کا آپ کے آخری نبی مبعوث ہونے کے حوالہ سے تعارف کرانا جیسا کہ قرآن مجید میں اجمالاً اور بے شمار احادیث و تفاسیر اور رسیر میں تفصیلاً موجود ہے۔" ہے۔ مکمل باحوالہ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو فقیر کی ناچیز تالیف تنبیات بجواب تحقیقات جلد اول کے شروع کے ابواب ۔ علاوہ ازیں ابھی دلیل نمبر ۴ کے تحت قرآن مجید کے حوالہ سے گزرا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خصوصیات کے ساتھ آپ صلی الی ایم کے متعلق عہد لینے کے لئے مزید تمام انبیاء ورسل کرام علیہم السلام کو جمع فرما کر ان سے جو کلام فرمایا اس میں بھی آپ کے خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین کا مفہوم موجود ہے۔

نیز دلیل ۱۴۶ میں صریحاً مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف بھیجی گئی اپنی وحی نیز مصحف انبیاء کرام علیہم السلام اور کتب سماویہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور کے آخر الانبیاء ہونے کے تذکرے فرمائے ۔ الله نبينا وبه عليهم وسلم اجمعین

نیز دلیل نمبر ۵ کے تحت قرآن شریف کے حوالہ سے اس مسئلہ پر مشتمل حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کا خطاب لا جواب اور بیان ذیشان پیش کیا جا چکا ہے۔

مزید یہ کہ روز محشر، میدان محشر میں جب اہل محشر شفاعت کی درخواست لے کر حضرت آدم علیہم السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک کے مختلف اکابر انبیاء ورسل علیہم السلام کی بارگاہوں میں عرضیاں پیش کرتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں پہنچیں گے اور مدعا بیان کریں گے تو وہ حضور کی عظمتیں بیان کر کے سب کو آپ کے دربار میں حاضر ہو کر درخواست کرنے کا فرمائیں گے اس میں بھی حضرت عیسی علیہ السلام آپ ملی ایم کے آخر النبیین ہونے کا حوالہ دیں گے ۔ حدیث کے لفظ ہیں

فیقول ان محمد الله خاتم النبین
یعنی عیسی علیہ السلام فرمائیں گے حضور سب سے آخر نبی ہیں یہ منصب آج انہی کا ہے انہی کے پاس جاؤ یہ کام انہی سے ہوگا۔

اسی حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں جب اہل محشر میرے پاس آئیں گے تو میں ان سے کہوں گا أنا لها واقعی یہ کام آج مجھ ہی سے ہوگا۔ پھر فرمایا:

فَنَحْنُ الْآخِرُونَ الْأَوَّلُونَ 3
ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب سے آخری ہیں مگر شرف اور بوت رہتے میں سب سے اول اور پہلے ہیں۔

اقول :

انبیاء کرام علیہم السلام کی تعداد میں مختلف روایات آتی ہیں بعض میں ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں بعض دیگر میں دولاکھ چونتیس ہزار نیز چالیس ہزار بھی موجود ہے۔

بہر صورت مجموعی حیثیت سے بظاہر یہ ایک دلیل تفصیلی اعتبار سے ہے کہ ہر نبی اور ہر رسول مستقل شاہد ہیں، ان کی تعداد کے مطابق دلائل کا مجموعہ ہے۔ پس اسی حساب سے اس کے نمبر دیے جا چکے ہیں۔

دلیل نمبر ۳۸( ملائکہ کرام علیہم السلام سے اس کا ثبوت ) :

حضرت جبریل علیہ السلام نے اذان دی جس میں حضور کا نام سن کر حضرت آدم علیہ السلام نے ان سے پوچھا: مَنْ مُحَمَّدٌ ؟ یہ محمد کون ہیں سی ای ام؟ فرمایا: آخِرُ وُلْدِكَ مِنَ الانبیاءآپ کی اولاد میں جتنے نبی آئیں گے ان میں سب سے آخری ہستی کا نام ہے۔ 22

ملاحظہ ہو (ختم النبوة ص ۱۵ تاليف منف اعلیٰ حضرت عليه الرحمة بحواله ابو نعيم و ابن عساكر عن ابي هريره رضى الله عنه مرفوعاً)

نیز ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور کے شق صدر کے موقع پر انہوں نے آپ سے عرض کی تھی :

انتِ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهُ الْمُقَفِيُّ الْحَاشِرُ 22
آپ میں اللہ ہم اللہ کے رسول ہیں، متقی ہیں حاشر ہیں۔

ملاحظہ ہو (ختم النبوة ص ١٥ ص ١٦ بحواله دلائل النبوة الابي نعيم عن عبد الرحمن الاشعرى مرفوعاً)

اقول :

ابھی دلیل نمبر ۲۸ تا ۳۱ کے تحت گزرا ہے کہ مقفی اور حاشر دونوں اسم کریم حضور کے آخری نبی ہونے کے مفہوم کو ادا کرتے ہیں ملی لی نام علاوہ ازیں قرآن مجید کی تمام آیات جس میں حضور نبی کریم ﷺ کے خاتم النبین ہونے کا ذکر ہے، انہیں حضور کے پاس لا کر پیش کرنے کا فریضہ سر انجام دینے والے قطعی طور پر حضرت جبریل علیہ السلام ہیں اس لئے ان آیات کے حوالہ سے بھی حضرت روحالامین کا اسم گرامی آئے گا ۔(عليه التحية والتسليم)

نیز شق صدر مبارک کے موقع پر جو ملئکہ کرام حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ تھے وہ ان کے اس قول کے شاہد ہوئے اور خاتم النبین بمعنی آخرالدین کے قائل ہیں۔

اسی طرح لوح محفوظ اور بیت العزۃ میں قرآن مجید ملاحظہ فرمانے والے سب ملائکہ کرام علیہ السلام جن کی تعداد کو اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، یہ بھی اس کے قائل ہو گئے۔

الغرض حضرات ملائکہ کرام بالخصوص حضرت جبریل علیہ السلام سے بھی خاتم النبین بمعنی آخر النبین ثابت ہے۔

دلیل نمبر ۳۹ ( دلائل شرع چار ہیں قرآن وسنت اور اجماع امت نیز نص شرعی نہ ہونے کی صورت میں قیاس واجتہاد امام مجتہد شریعت ) :

پہلے دو قسموں سے دلائل بقدر کفایت پیش کئے جاچکے ہیں۔ چوتھی قسم کی حاجت اس وقت پڑتی ہیں جب پہلی مذکورہ قسموں سے دلیل نہ پائی جائے ۔ اب پڑھیئے اس پر تیسری قسم کی دلیل یعنی اجماع امت۔

اس کی سب سے عمدہ دلیل جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ الکذاب اور اس کے ماننے والوں کے خلاف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اس دور کے مسلمانوں کا عملی جہاد ہے جو آپ صلی ٹیم کے وصال کے پہلی فرصت میں ترجیحی بنیادوں پر صدیق اکبر کے حکم سے اور تمام اکابر کے اتفاق سے حضرت شمشیر خدا سید نا خالد بن ولید کے زیر قیادت (۱۱-۱۲ھ میں ) ان باغیان ختم نبوت کے گھر میں جا کر کیا گیا یہی شکر دس ہزار اور ایک روایت کے مطابق اکیس ہزار نفوس پر مشتمل تھا جس نے بڑی گھمسان کی جنگ میں باغیان نبوت کی چالیس ہزار فوج کے پڑنچے اڑائے اور دھجیاں فضا میں بکھیر یں اور ان کی سرکوبی کر کے سینکڑوں نے انہیں واصل جہنم کیا، (اس عقیدہ کے تحفظ کی خاطر ) اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور جام شہادت بھی نوش کئے جن میں اکثریت ان کی تھی جو قرآن مجید کے حفاظ وعلماء تھے۔ (شہداء کی تعداد پانچ سو اور دوسری روایت پر چھ سو بتائی جاتی ہے ) ولولہ ایسا تھا کہ حضور کے نام کے فدائیہ نعرے بھی لگاتے تھے اور یا محمد اہ کہتے تھے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو البدایه و النهایه، جه ص ۲۹، ۳۰، ۳۱ ، ٤٧ ، ٤٨ ، طبع بیروت، نیز تاریخ الخلفاء امام سيوطى، ص ٧٦)

اقول :

{p |اگر یہ عقیدہ اسلام کی بنیادی عقائد سے نہ تھا تو اس کے لئے اس قدر جان کی بازی کیوں لگائی گئی اور سب کچھ چھوڑ کر اس پر اتنی توجہ کیوں دی گئی؟{ }}

اس موقع پر حضور کے چاروں یا ریعنی خلفاء راشدین حضرت صدیق اکبر، حضرت عمر فاروق اعظم م ، حضرت ذوالنورین، حضرت شیر خدا بقیہ حضرات عشرہ مبشرہ، اصحاب بیعت رضوان ، اصحاب بدز، اصحاب احد و حنین و غیر هم صحابہ کرام موجود تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین

شہزادی حضور خاتم النبیین سیدہ زہراء بتول، امام اہل بیعت سیدنا حسین مجتبی اور حسین مرتضی نیز حضور کی ازواج مطہرات خصوصیات کے امام اہل بیت شہید کر بلا سید نا حسین مرتضی : ساتھ ام المؤمنین حضرت صدیقہ بنت صدیق وغیر ہم رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی موجود تھے۔ سب اس فیصلہ پر راضی اور خوش تھے اور کسی نہ کسی حوالہ سے اس کے موید و شریک تھے کسی ایک نے بھی اس پر تنقید نہ فرمائی، نیز اکابر تابعین بھی موجود تھے جیسے قدوۃ التابعین حضرت اویس قرنی ، اسوة التابعین حضرت سعید بن المسیب و غیر هما۔

پس ان مسائل سے جس پر بلا استثناء تمام خلفاء راشدین، جمله صحابه کرام جمله

ازواج واہل بیت اور عترت پاک نیز ائمہ تابعین کا پر جوش عملی اظہار کے ساتھ حقیقی اجماع ہے۔

پھر ان کے بعد ہر زمانہ کے جملہ اہل اسلام آج تک اس پر متفق ہیں کسی ایک کو بھی اس سے اختلاف سے اختلاف نہیں جن میں ائمہ اربعہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور ان کی فقہ پر چلنے والے تمام مخفی ، مالکی ، شافعی حنبلی فقہاء نیز ائمه سلاسل روحانیه حضور غوث اعظم ، حضرت چشتی ، خواجہ نقشبند شیخ سہروردی خواجه نقشبند شیخ سہروردی اور ان کے مسلمین تمام قاد چشتی نقشبندی اور سہروردی صوفیاء کرام ۔

نیز ائمه کلام حضرت امام ابو منصور ماتریدی اور امام ابو الحسن اشعری اور ان کے وابستگان تمام اشعری و ماتریدی متکلمین اور جملہ امہ فن حدیث امام بخاری امام مسلم، امام ترندی ، امام ابو داؤد، امام نسائی ، امام ابن ماجہ و غیر هم رضی اللہ عنہم اجمعین ۔

الغرض جملہ فقہاء، محدثین منتظمین اور ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے تمام علماء اسلام کا اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ حضور آخر النبین ہونے کے معنی ہی میں خاتم النبین ہیں ۔ صلى الله تعالى عليه وعلى اله وصحبه وتبعه اجمعين

یہی وجہ ہے کہ پوری امت اس واقعہ کو حضرت صدیق اکبر کے اعظم المناقب سے شمار کرتے ہوئے اسے آپ کے عظیم کارناموں سے گردانتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری امت اس اجماع کا حصہ ہے۔

مزید علماء امت کے اقوال کو یکجا کیا جائے تو کئی ضخیم مجلدات بن جائیں گی جو موجب طوالت ہے اور اس وقت مقصود بھی نہیں اس لئے اسے دوسرے وقت پر محمول کرتے ہوئے سردست اسی ایک مثال پر اکتفاء کیا جاتا ہے جو لاعطر بعد العروس“ کی مصداق کامل ہے۔

نمونہ کے طور پر اوحد امجتہد بن مقدام الراخین فی العلم حضرت امام اعظم ابوحنیفه رضی اللہ عنہ کا اس سلسلہ کا یہ قول مبارک ہمیشہ پیش نظر رکھیئے ۔ فرمایا کسی عام مسلمان کا کسی جھوٹے مدعی نبوت سے یہ کہنا بھی کفر ہے جو اسے اسلام سے خارج کر دیتا ہے کہ تم واقعی نبی ہو تو اس کی کوئی دلیل پیش کرو، کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس کوحضور اقدس می بینیم کے خاتم النبین ہونے میں شک ہے جبکہ اس میں شک کرنے والا کافر ہے۔

دلیل نمبر ۴۰، ۴۱ ( جانور تک مان گئے ): اور تو اور رہا گوہ اور گدھے جیسے جانور بھی مان گئے کہ حضور اس معنی میں خاتم النبین ہیں کہ سب نبیوں میں آخری ہیں۔ قادیانی نہ مانیں تو ان کی قسمت کہ غیر ذوی العقول بھی ان سے اچھے رہے۔

چنانچہ ایک طویل حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص گوہ کو شکار کر کے لے آیا اور اسے مجمع صحابہ کرام میں آپ صلی الہ ایم کے سامنے پھینک کر کہا جب تک یہ گواہ اظہار ایمان نہیں کرے گی میں ایمان نہیں لاؤں گا آپ نے گوہ کو حکم فرمایا بتا میں کون ہوں؟

تو اس نے با آواز بلند کہا:

انْتُ رَسُولُ رَبِّ الْعَلِمَينَ وَخَاتَمُ النَّبِيِّنِ 22
آپ کل کائنات کے مالک کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں آخری نبی ہیں۔

اس پر وہ مسلمان ہو گیا۔

ملاحظہ ہو (ختم النبوة ص ٤٠ بحواله طبرانی، ابن عدی، حاکم، بیهقی و ابن عساكر عن سبادانا عمرو على وعائشه وابي هريره رضى الله عنه)

نیز ایک اور حدیث میں ہے غزوہ خیبر کے موقع پر ایک سیاہ رنگ کے گدھے نے حضور کی خدمت میں اپنے دکھوں کی داستان سنائی اور درخواست پیش کی کہ میں نے آپ کی خاطر بہت ماریں کھائی ہیں میرے خاندان میں انسٹھ گدھے ایسے گزرے ہیں جن کو انبیاء کرام علیہم السلام کی سواریاں بننے کا شرف ملا میری خواہش ہے کہ آپ صلی القدیم مجھے انھیں سواری کے طور پر قبول فرمائیں ۔ حضور نے قبول فرمایا اور اس کا نام یعفور رکھا۔

اس طویل روایت میں اس کے یہ الفاظ بھی تھے جو مانحن فیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

چنانچہ اس نے کہا تھا :

لَمْ يَبْقَ مِنْ نَسلِ جَدِى غَيْرِى وَلَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ غَيْرُكَ 22
میرے دادا کی نسل سے میرے سوا کوئی باقی نہیں اور آپ بھی سب نبیوں میں آخری نبی ہیں۔

ملاحظہ ہو (ختم النبوة ص ۷۳۰۷۲ بحواله ابن حبان، ابن عساکر، ابو نعیم وغيرهم عن معاذ رضی الله عنه وغيره

اقول:

جانور کلام کرنے والی مخلوق نہیں بناء علیہ گوہ اور گدھے کا کلام کرنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ قدرت سے ان سے یہ گواہیاں دلوا کر انہیں در حقیقت منکرین ختم نبوت کے لئے درس عبرت بنایا کہ جانور مانیں انسان کہلانے والو تمہیں کیا ہو گیا کہ انکار کرتے ہو، بے عقل تسلیم کریں ، خود کو عقل کے پہلے سمجھنے والی مخلوق تمہاری سمجھ کہاں گئی ؟ پس مان جاؤ ورنہ جانور بھی تم سے نمبر لے گئے ۔

دلیل نمبر ۴۲ ( ختم نبوت کی عقلی دلیل ) :

دلائل شرعیہ کے بعد اگر عقلی معیارت دیکھا جائے تو عقل سلیم کا تقاضا بھی یہی بنتا ہے کہ حضور آخر النبیین کے معنی میں خاتم النبیین ہوں کیونکہ کسی نعمت کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب وہ نہ ہو یا اس کے کسی پہلو کا حصول باقی ہو جبکہ اللہ تعالی نے اس امت کی ہدایت اور فلاح اخروی کے لئے اپنی نعمت کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رکھا کیونکہ اس کے لئے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ دین شریعت، اس کا لائحہ عمل اور اس کا لانے والا ۔ دین و شریعت اسلام ہے۔ اس کا لائحہ عمل قرآن ہے جنہیں لانے والے سرکار ہیں ۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ۔

دین بھی کامل ہے قال اللہ تعالیٰ :

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَالْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا 3
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو چن لیا۔

قرآن بھی کتاب کامل ہے۔ قال اللہ تعالیٰ :

مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ 3
کوئی ایسی چیز نہیں جو ہم نے اس کتاب میں بیان نہ کی ہو جسے بیان نہ کیا ہو۔

اس کو لانے والے بھی اللہ کے بعد سب سے بڑی ہستی ہیں اور بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کے مصداق ہیں۔

قال اللہ تعالیٰ :

ورَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ 3
اللہ نے آپ کو اپنے سب رسولوں سے بدرجات بلند بنایا۔
وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ 3
آپ پر اس نے اپنی نعمتیں تمام کر دی ۔
وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى 3
آپ کے لئے ہر آنے والی گھڑی گزشتہ گھڑی سے بہتر ہے اور عنقریب آپ کو آپ کا رب اتنا دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے ۔

یعنی محبوب میں آپ کو اتنا دوں گا کہ جب تک تو بس نہیں کہے گا میں بس نہیں کروں گا۔

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ 3
ہم نے آپ کی خاطر آپ کے ذکر کو ہمیشہ کے لئے بلند کر دیا۔
إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرِ 3
محبوب ! ہم نے آپ کو قلیل ، کثیر اور در کثیر نہیں بلکہ کوثر دیا یعنی عالمین کی سب العمتیں عطا فرمائیں۔

عرف میں یہ ہے کہ جس ہبہ کے عوض کچھ دے دیا جائے تو وہ نا قابل واپسی ہوتا ہے اب آپ یوں کریں کہ ہماری اس بخشش کے شکریہ میں کچھ نماز پڑھ دیں اور قربانی کبر دیں تا کہ کوئی اس عطا کے قابل واپسی ہونے کا شبہ نہ ڈال سکے جب یہ سب پکا ہو گیا تو جو آپ کی بدخواہی کا سوچے گا نیک نامی کے حوالے سے اسے مٹا دوں گا یعنی آپ کے ڈنکے بجتے اور چرچے ہوتے رہیں گے اور جو چاہتا ہے کہ باقی رہے اور خسارے سے بچ جائے تو بس اس کا ایک ہی حل ہے کہ وہ آپ ہی کا ہو کر رہے ۔

لہذا جب دین کامل ، کتاب کامل اور حضور سب سے کامل واکمل ذات ہیں اور نعمت کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کا عطا کرنا ابھی باقی ہو تو اس تناظر میں کسی اور نبی کی حاجت ہی نہیں بلکہ گنجائش ہی نہیں ۔

اس کی حاجت اور گنجائش سمجھنا دین کی ، کتاب کی اور ان کے لانے والے عظیم پیغمبر کی تو ہین ، گستاخی اور بے ادبی ہے جبکہ دین کی تو ہین کفر ہے۔ قرآن کی تو ہین کفر ہے، نبی کی تو ہین کفر ہے۔

پس حضور کے بعد کسی نبی کی بعثت کا سوچنے والا ایک طرح سے نہیں تین طرح سے ، کافر ہے، اسلام کی توہین کر کے قرآن کی توہین کرکے اور بی کریم اور سول اعظم ملا ایم کی تو ہین کر کے۔

بناء علیہ مرزائی دلائل شرعیہ اور عقلیہ سب کی رو سے کفر کی پھانسی کے تین بار مستحق ہیں یعنی انہیں صرف کافر کہیں تو بھی ٹھیک ہے لیکن ان کا کوٹہ تب پورا ہو گا جب انہیں یوں سنایا جائے کہ کافر ہیں کافر ہیں کافر ہیں۔

اس سے یہ بھی واضح ہو گیا، جن لوگوں کے بل بوتے پر مرزائیوں کو اس کا حوصلہ ہوا وہ اس حکم میں مرزائیوں سے بھی بڑھ کر ہیں ( وہ کون ہیں؟ اس کی تفصیل بالکل اوائل میں گزر چکی ہے )

پڑھئیے اس بحث کی آخری شق یعنی مرزا قادیانی کے دعوٹی نبوت میں جھوٹے ہونے کا بیان۔

دلیل ۴۲:

دعوی نبوت میں مرزا قادیانی کے جھوٹے دلیل : گزشتہ صفحات میں حضور نبی کریم ﷺ کے خاتم النبین بمعنی آخر المین ہونے کے ذکر کردہ تمام دلائل سے ایک ایک دلیل، مرزا قادیانی کے دعوی نبوت میں سخت جھوٹے اور شدید کا ذب ہونے کی بھی دلیل ہے بناء علیہ مذکورہ دلائل کا رقم مسلسل پیش نظر عنوان کے ساتھ بھی چل سکتا ہے۔

اس کے مزید کچھ خصوصی دلائل بھی حاضر ہیں۔ پس پڑھیئے ۔

دلیل نمبر ۴۳ ( تضاد بیانی در دعوی نبوت ):

مرزا قادیانی کے دعوی نبوت میں جھوٹے ہونے کی ایک اہم دلیل یہ ہے کہ اس کے (1) اس بارے میں بیانات متضاد ہیں چنانچہ وہ کبھی تو کہتا تھا کہ تین نبی اور رسول تو ہوں لیکن غیر مستقل اور غیر تشریعی ہوں ، کوئی جدید شریعت لانے والے نہ ہوں ۔ 22 (ملخصا )

ملاحظہ ہو ( اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ص ۴)

دعوی (۳) کبھی کہتا تھاکہ مجھ پر امر نہی والی وحی اترتی ہے اور میں امت کے لئے قانون ساز ہوں اور یہی شریعت ہوتی ہے اس لئے میں صاحب شریعت ہوں جسے نہ ماننے والے میرے مخالفین ، ملزم اور مجرم ہیں۔22 (ملخصا )

ملاحظہ ہو (اربعین ج ٣ ص ٧٠٦)

دعوی (۳) اور کبھی کہتا کہ نبی نہیں ہوں محدث ہوں۔ نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محد ثیت کا دعوی ہے جو بحکم خدا کیا گیا۔22

ملاحظہ ہو (ازالہ اوھام ص: ۱۷۴)

اقول :

اس کے جھوٹے ہونے کے لئے یہی بھی کافی ہے کیونکہ سچا نبی اپنے دعوئی نبوت سے کبھی منحرف نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس بارے میں وہ تضاد بیانی کا شکار ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضور کے اعلان نبوت کے بعد ایک مرتبہ رؤسا و کفار نے جمع ہو کر آپ سے کہا جائداد، رشتہ اور حکومت جو کہو ہم آپ کو پیش کرتے ہیں۔ لیکن اپنا یہ دعوئی واپس لے لو۔

فرمایا میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دو، تب بھی یہ کام نہیں کر سکتا۔

اور مرزا قادیانی چونکہ فی الواقع اس میں جھوٹا تھا اس لئے چلو ادھر کو جدھر کی ہوا ہو اور جیسا دیس ویسا بھیس کے مطابق لوگوں کے ماحول کے مطابق چلتا ، مختلف رنگ بدلتا اور کئی چالیں چلتے ہوئے ایک ہی منہ سے کئی بولیاں بولتا تھا۔

پس مرزا قادیانی اپنے ہی ان بیانات کی رو سے جھوٹا اور پکا کافر تھا کیونکہ غیر نبی کا خود کو نبی کہنا بھی کفر ہے اور نبی کا خود کو غیر بی کہنا بھی کفر ہے۔ پھر ایسے کو نبی کہنا بھی کفر ہے۔ لہذا مرزا اور اس کے ماننے والے قطعی طور پر ہر طرح سے جھوٹ اور کافر ہیں۔ واللہ الحمد

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَامَنْتُمْ بِرُسُلِى وَعَزَّرْتُمُوهُمُ 22
یعنی اے اسرائیلو ! میری مغفرت اور جنت کے حاصل ہونے کی بڑی شرائط سے یہ ہے کہ تم میرے پیغمبروں پر ایمان لاکر ان کی کمال درجہ تعظیم بجالاؤ۔

جبکہ انکار ادب و احترام من حيث الاعتقاد ضروریات دین سے ہے یعنی ان کے واجب التعظیم ہونے کا عقیدہ رکھنا اسلام کے ان بنیادی امور سے ہے جن پر ایمان رکھنا مسلمان ہونے کے لئے لازم ہے اور کسی ایک کا انکار بھی مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ ( كما قدمر ..... في اوائل الرسالة)

بناء علیہ کسی بھی نبی کی تو ہین ، سوء ادبی اور گستاخی کفر اور اس کا ارتکاب کرنے والا کافر ہے۔ دائرہ اسلام سے خارج اور واجب القتل ہے۔ ایسا کہ تو بہ بھی کر لے تو بھی اس کی دینوی سزا معاف نہیں ہوتی اور کسی کو اس کے معاف کرنے کا حق نہیں دیا گیا کیونکہ ایک عام آدمی کی بھی حق تلقی کی گئی ہو تو جب تک وہ معاف نہ کرے کوئی معافی نہیں دے سکتا چہ جائیکہ اللہ کے نبی کی حق تلفی کی معافی دینے کا کسی کو اختیار ہو، نبی بھی ایسا جو سید الکل اور نبیوں کا بھی نبی ہو۔

صحیح حدیث میں ہے ارشاد فرمایا :

مَنْ سَبَّ نَبِيًّا فَاقْتُلُوهُ
جو کسی بھی نبی کو گالی دے تو اس کی سزا قتل ہے ( رواہ )

فقہاء وائمہ اسلان نے فرمایا : يُقْتَلُ حَدا اس کی یہ قتل کی سزا تعزیر نہیں بلکہ حد ہے ( جس کی معافی نہیں دی جاسکتی )

مرزا قادیانی سے انبیاء کرام بالخصوص حضرت کلمۃ اللہ روح الله سید نا عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی اور سوء ادبی ثابت ہے چنانچہ ایک مقام پر اس نے (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ نقل کفر، کفر نباشد ) حضرت کلمۃ اللہ علیہ السلام کو فراڈی، فریبی اور مکار کہا ہے۔

اور اس کا یہ شعر تو بہت مشہور ہے کہ (العیاذ بالله)

ان مریم کے ذکر کو چھوڑ اس سے بہتر غلام احمد ہے

اس کے گستاخ اور بے ادب ہونے کے باحوالہ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو امام اہل سنت اعلیٰ حضرت کا رسالہ مبارکہ ”السيوء والعقاب على المسيح الكذاب‘‘ جبکہ سچا نبی، سچے نبی کا مصدق و معظم ہوتا ہے مکذب اور موہن نہیں ہوتا جیسا کہ آیت کریمہ کے الفاظ

ثُمَّ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مُصَدِّق

سے بھی واضح ہے۔

بناء علیہ یہ بھی مرزا قادیانی کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے۔ سچا نبی تو گناہ سے بھی معصوم ہوتا ہے چہ جائیکہ کفر کا مرتکب ہو۔ پس جب نبی گناہ گار نہیں ہوتا اور گناہ گار نبی نہیں ہوتا تو بطریق اولی یہ بھی لازم کہ نبی کا فرنہیں ہوتا اور کافر نبی نہیں ہوتا ۔ الغرض مرزا تو مسلمان ہی نہیں چہ جائیکہ وہ نبی ہو۔

اقول :

ہمارے مناظرین کو چاہیے کہ مرزائیوں کے ساتھ کامیاب اور نتیجہ خیز مناظرہ کے لئے اسی کو موضوع بحث بنایا کریں کہ قادیانی تو صاحب ایمان ہی نہیں کیونکہ اس سے اس کا بالکلیہ خاتمہ ہو جاتا اور لوگوں پر اصل حقیقت کھلتی ہے۔

دلیل نمبر ۴۵ ( غلط پیشگوئیاں ):

بچے نبی کی کوئی پیش گوئی کبھی غلط اور خلاف واقعہ نہیں ہوتی خواہ اس کے لئے نظام دنیا ہی کیوں نہ بدلنا پڑے کیونکہ نبی تو خدا کی ہدایات پر چلتا ہے پیش گوئی کے غلط ہونے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ خدا نے اس کو غلط بتایا پھر جب ۔معاذاللہ خدا بھی سچا نہیں تو اس کا بھیجا ہوا کیسے سچا ہو سکتا ہے۔

الغرض اس کی پیش گوئی کا غلط ہونا اس کے دعوئی اور مشن کے باطل ہونے کو ملتزم ہے اس لئے جس کی پیش گوئی غلط ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنی طرف سے گھر کر رہا ہے اس طرح سے وہ خدا سے جھوٹ کو منسوب کر رہا ہے۔

اس کی ہزاروں مثالیں قرآن وسنت اور سیر و تواریخ میں موجود محفوظ ہیں، تکمیل عنوان کے لئے ایک دو مثالیں ملاحظہ کیجئے ۔

چنانچہ سورہ روم کی ابتدائی آیات کے تحت کتب تفسیر میں ہے کہ رومیوں اور مجوسیوں کی جنگ ٹھن گئی۔ مسلمانوں کو یہ پسند تھا کہ رومیوں کو جیت جانا چاہیے کیونکہ وہ اہل کتاب تھے جن کا کفر مجوسیوں کے کفر سے نرم تھا۔ اس کے برعکس مشرکین مکہ یہ پسند کرتے تھے کہ مجوس جیت جائیں کیونکہ ان کی آتش پرستی ان کی بت پرستی کے مشابہ تھی اور ان کی یہ سر پرستی انہیں قدر مشترک تھی لیکن ہوا یہ کہ مجوس جیت گئے جس سے کافروں کو خوشی ہوئی اور انہوں نے اسے چڑ بنا لیا۔

یہ بات رسول اللہ ﷺ ہم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا آئندہ چند سالوں میں ان میں یہ جنگ دوبارہ ہوگی جس میں رومی جیت جائیں گے۔ مشرکین کہتے ہیں انہیں غیب کا کیا علم، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان سے دو طرفہ شرط رکھ لی کہ ایسا نہ ہوا تو میں اتنے اونٹ دوں گا ورنہ تمہیں دینے ہوں گے۔

سرکارﷺکی بیان فرمودہ تفصیل کے مطابق جنگ دوبارہ لگی اور آپ کے حسب پیش گوئی رومی جیت گئے ۔ حضرت صدیق اکبر نے کفار و مشرکین سے طے شدہ اور ان کے سینہ پر چڑھ کر وصول فرمائے ( اس وقت دو طرفہ شرط ممنوع نہ تھی ) سبحان اللہ ۔

اسی طرح معراج شریف سے واپسی کے موقع پر کفار و مشرکین نے حضور نبی کریم صلی الیم سے بہت سوالات کیے ایک سوال یہ تھا کہ ہمارا قافلہ کب یہاں واپس پہنچے گا؟

آپ نے فرمایا فلاں دن عین طلوع آفتاب کے وقت ! ادھر سورج کا کنارہ چکے گا تو ادھر تمہارے قافلے کا سب سے آگے چلنے والا بھورے رنگ کا اونٹ دکھائی دے گا۔ اس موقع پر قافلہ اتنی تاخیر سے روانہ ہوا کہ نظر ظاہر میں وہ طلوع آفتاب کے وقت مکہ میں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن سورج کو حکم فرمایا آج اس وقت ظاہر ہونا جب میرے حبیب کے کہنے کے مطابق قافلہ پہنچے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کافروں نے دو گروپ بٹھا رکھے ۔ ایک سورج کی تاک میں تھا دوسرا قافلے کی انتظار میں سورج کے تاڑنے والوں میں سے ایک بولا وہ دیکھو سورج کا کنارہ چمکا ، دوسرے گروپ کے شرکاء بولے وہ دیکھو بھورا اونٹ بھی نمودار ہوا۔

ملاحظہ ہو (تفسیر ابن کثیر و غیره تحت آیت اسراء)

نیز صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ غزوہ بدر کے برپا ہونے سے پہلے میدان جنگ کا جائزہ لینے کے دوران پیش گوئی فرمائی تھی:

هذا مَصْرِعُ فُلَانٍ عَدَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَهَذَا مَصْرِعُ فَلَا يَعْدَا إِنْ شَاءَ الله
یعنی مختلف کافروں کے مرنے کی جگہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کل ان شاء اللہ ابو جہل یہاں مرے گا اور یہ ان شاء اللہ عقبہ کے اور یہ شیبہ کے مرنے کی جگہ ہے ( وغیرہ وغیرہ ) ۔

صحابہ کرام فرماتے ہیں جنگ سے فراغت کے بعد جب ہم نے ان کی نعشوں کو دیکھا تو وہ ان جگہوں پر پڑی تھیں جہاں آپ نے فرمایا تھا ایک بال برابر بھی فرق نہ تھا۔

نیز صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیر ہم میں ہے کہ غزوہ خیبر میں یہود سے مسلمانوں کی لڑائی میں نتیجہ نہیں نکل رہا تھا تو آپ نے فرمایا :

لاعْطِينَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ اللَّهُ عَلَى لَدِيهِ

کل میں ایک ایسے شخص کو جھنڈا پکڑاؤں گا جو اللہ اور اس کے رسول کا صحت بھی ہے محبوب بھی جس کی تابڑ توڑ کاروائی اور پیش قدمی سے فتح ہو جائے گی۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خیبر کا قلعہ آج تک گواہ ہے۔

اس محبت و محبوب سے مراد حضرت مولانے کا ئنات شیر خدا کرم اللہ وجہ الکریم تھے۔

آمدیم بر سر مطلب ! لیکن اس کے برعکس اس بھلے مانس مرزا قادیانی کی کوئی پیش گوئی سچ ثابت نہ ہوئی۔

اس نے جو اور جتنی خبریں دیں اس کے بالکل الٹ ہوا۔ بطور نمونہ اس کی بھی کچھ مثالیں ملاحظہ کیجئے ۔

اس سلسلہ کا سب سے اہم واقعہ مرزا کے اپنے خاندان کی ایک دوشیزہ محمدی بیگم پر فریفتگی کا ہے جو اس کے مرنے سے نو دس سال پہلے وقوع میں آیا۔ اس نے اس کے حصول کے لئے بہت جتن کیے اور ہر حیلہ کیا لیکن کوئی کارگر نہ ہوا اور یہ بتایا کہ یہ سب اللہ کے حکم سے کر رہا ہوں اور اس نے مجھے پیش گوئی کے طور پر فرمایا ہے کہ وہ تیرے نکاح میں آکر رہے گی ہم نے وہ تیرے نکاح میں دے دی ہے۔ اس کے گھر والوں کو پیغام دیا اور برغم مویش اور اللہ کا حکم سنایا لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ اس نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ اگر انہوں نے اسے یہ لڑکی نہ دی تو ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے اگر دوسری جگہ اس کا نکاح کیا تو لڑکی ڈھائی سال کے اندر اندر مر جائے گی اور اس کا ناکے تین سال میں مر جائے گا۔

جب اس سے بھی کام نہ بنا تو اب بہت لجاجت اور منت سماجت سے کہا کہ بڑے ادب اور عاجزی سے گزارش ہے کہ میرا کہنا مان لو، لالچ بھی دیا کہ جتنا مال جائداد کہو گے لڑکے کے نام کرادوں گا لیکن پھر بھی کام نہ بنا۔

اب یہ بیمار پڑ گیا اور اسی فکر میں قریب المرگ ہو گیا اسی حالت میں پھر اعلان کیا کہ مجھ پر وحی اتری ہے کہ وہ تیری ہی ہے۔ رب فرماتا ہے کہ اس کا نکاح دوسری جگہ ہو بھی تو بھی وہ اپنے شوہر سے خلاصی پا کر ضرور تیرے نکاح میں آئے گی یہ تقدیر مبرم ہے۔ نیز انہیں کہا کہ لڑکی اب بھی مجھے نہ دی گئی تو میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں گا اور اپنے بیٹے سلطان احمد کو جو میرا مخالف ہے، جائداد سے عاق کر دوں گا لیکن وہ پھر بھی نہ مانے اور لڑکی کے والد نے محمدی بیگم کا نکاح اپنے ایک عزیز سلطان محمد سے کر دیا۔

مرزا نے کہا میں کوئی چوڑا چار تھا کہ تم نے مجھ پر سلطان محمد کو فوقیت دے دی ہے اس کے ساتھ ہی اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور بیٹے کو عاق کر دیا اور دوسرے بیٹے سمی فضل احمد سے کہا تم بھی اپنی بیوی ( میری بہو ) کو طلاق دے دو ( کیونکہ وہ محمدی بیگم والوں کی قریبی رشتہ دار تھی ) چنانچہ اس نے بھی اپنی بیوی کو طلاق دے دی لیکن کام پھر بھی پورانہ ہو سکا۔ مرزا خود ۱۹۰۹ء میں آنجہانی ہوا لیکن محمدی بیگم اور اس کا شوہر اس کے بعد بھی زندہ رہے اور اس کے والد پر بھی کوئی مصیبت نہ ٹوٹی۔ اس کے بعد مرزا قادیانی کے بعض مخالفین نے اپر مقدمہ کر کے یہ مطالبہ کیا کہ اسے اس طرح کی یاوہ گوئیوں سے منع کیا جائے ۔ جو طلبی پر اس نے معافی مانگی کہ آئندہ احتیاط کروں گا۔ سبحان اللہ ! یہ ہے نہیں۔ جواب ان تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہوں مرزا اور اس کے ماننے والوں کی حسب ذیل کتب : ( آئینہ کمالات اسلام ص ۲۸۶/۲۸۸ تبلیغ رسال ج ص ۲۱۱۱/۱۱۸ ص ۹ ج ۳ ص ۱۵ امرزاله او حصام ۱۹۸ فیصلہ آسمانی ص ۴۰ انجام آتھم ص ۲۲۳ ص ۳ حاشیه و غیره )

اقول :

اس پیش گوئی کا لفظ لفظ مرزا قادیانی کے جھوٹ در جھوٹ کو بانگ دہل ہان کر رہا ہے لیکن اس حوالہ سے ہم سے کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے خود مرزا کے لفظوں میں اس کے جھوٹے ہونے کا اعلان سنائے دیتے ہیں۔

چنانچہ مرزا نے اس وقت اپنی اصلیت کو واضح اور حیثیت کو متعین کرتے ہوئے صاف صاف کہا اور لکھا تھا کہ لوگوں کو واضح ہو کہ ہماری صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہو سکتا “ ( آئینہ کمالات اسلامص ۲۸۸)

نیز کہا:

میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیشگوئی داماد احمد بیگ ( سلطان محمد ) کی کی. تقدیر مبرم ہے۔ اس کا انتظار کرو۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوئی اور میری موت آجائے گی۔ 22

اقول :

جب خود حسب اعلان مرزا یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی اور اس کی موت بھی آگئی تو اس پر اس کی مقرر کردہ محک(یعنی سکوٹی) سے میں جھوٹا ہوں کا کم قطعی طور پر آگیا۔

اب مرزائیوں کے لئے دو راستے ہیں کہ اس بیان کے پیش نظر وہ اپنے مرزا کو سچا کہیں گے یا جھوٹا ؟ اسے سچا کہیں تو بھی وہ جھوٹا قرار پائے گا کیونکہ اس نے یہ حکم خود تجویز کیا ہے اور اگر وہ اسے جھوٹا کہیں تو وہ ڈبل جھوٹا ہوا اپنے لفظوں میں بھی اور اپنے ماننے والوں کی طرف سے ملنے والے عطیہ سے بھی۔

اگر کچھ نہ بولیں تو یہ بھی کئی طرح سے جھوٹے ہوئے یعنی اس کی شان کو چھپا کر،

اس کا کہنا نہ مان کر نیز حق بیان کرے سے ساکت رہ کرد

مزید پڑھیئے :

مرزا قادیانی نے ایک پیش گوئی کی تھی کہ عبداللہ آتھم پادری ۵ ستمبر ۱۹۱۴ء میں مر جائے گا جب یہ ڈیٹ قریب آئی صرف ایک دن رہ گیا تو مرزا نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے اس کی بلا کی کی غرض سے مخصوص تعداد میں چنوں پر سورہ فیل پڑھوائی۔ رات میں وہ اپنے ایک اندھے کنویں میں ڈال آئے مگر وہ پھر بھی نہ مرا عرصہ تک زندہ رہا۔22

نیز آنجہانی نے مزید یہ پیش گوئی کہ کہ اس کا مخالف ڈاکٹر عبدالحکیم خال ۴ را گست ۱۹۰۸ء تک مر جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر اس کے بعد بھی عرصہ تک بقید حیات رہے۔

معروف غیر مقلد مولوی شاء اللہ امرتسری۔ اپنے ہم عقیدہ خاتمہ امثالیہ تا جرم چھپانے کی غرض سے خود کو قادیانی کے مخالفین میں ظاہر کرتے (حالانکہ امثالیہ اور قادیانیہ میں صرف عنوان کا فرق ہے، باقی سب کچھ ایک ہے بلکہ امثالیہ زیادہ مجرم ہیں کیونکہ انہی کے بل بوتے پر مرزا نے یہ سارا ڈرامہ کھیلا۔ یہی وجہ ہے کہ امرتسری موصوف نے امثالیہ کے خلاف فتویٰ صادر نہیں کیا ) قادیانی نے اسے اپنا مخالف تصور کر لیا اور اپریل ۱۹۰۷ء میں کہا کہ مولوی ثناء اللہ امرتسری مذکور بہت جلد طاعون، ہیضہ میں مبتلا ہو کر مر جائے گا لیکن وہ اس کے بالکل بر عکس مرزا خود ہی تھوڑے عرصہ بعد ہیضہ میں مبتلا ہو کر مر گیا اور امرتسری موصوف کم و بیش چالیس سال بعد ۱۹۴۸ء میں آنجہانی ہے۔

خلاصہ یہ کہ بچے نبی کی پیش گوئی غلط اور جھوٹی نہیں ہو سکتی جبکہ قادیانی کی کوئی پیش گوئی کچی ثابت نہ ہو پائی جو اس کے دعوی نبوت میں جھوٹے ہونے کی بین دلیل ہے۔

زید پڑھیئے۔

دلیل ۴۶ ( اپنے منہ آپ جھوٹا ) :

محمد بیگم کے متعلق پیش گوئی کی بحث میں گزر چکا ہے کہ اس نے خود کہا کہ میرے چ اور جھوٹ کو جانچنے کے لئے اس پیش گوئی سے بڑھ کرکوئی میعار نہیںہوسکتا نیز یہ کہا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آجائے گی ۔ تفصیل ادھر دیکھیں۔

چنانچہ اس کے کہنے کے مطابق ہوا کہ وہ اس کے پورا ہونے سے پہلے مر گیا جو اپنے منہ آپ جھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔ مزید سنیئے ۔

یلا ایک موقع پر قادیانی نے لکھا کہ جو اخلاق رذیلہ کا حامل ہوا نام زماں نہیں ہو سکتا اور یہ نہایت قابل شرف بات ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رذیلہ میں گرفتار ہو ( ملخصا )

ملاحظہ ہو ،ضرور الامام ص :۸

لیکن اس کے برعکس اس نے خود اپنے مخالفین کو بہت غلیظ قسم کی گالیاں دیں بلکہ گالیاں دینا اس کی عادت ثانیہ تھی۔ مثلاً اس کا یہ قول کہ میں نے ان کے کپڑے اتار لئے ہیں، ان کو مردار بنا کر چھوڑ دیا ہے، یہ بیابانوں کے خزیر ہیں، ان کی عورتیں کیتیوں سے بڑھ گئی ہیں نیز غول لعین نطفہ ، السفہاء ذئاب کلاب شیطان شقی ملعون وغیرہ ۔ نیز ابن بغاء اور ذریۃ البغایا کے الفاظ اس کا تکیہ کلام تھے۔

ملاحظہ ہو ( آئینہ کمالات اسلام ص ۴۷، نور الحق ص ۱۲۳، نجم الهدی ص ۱۵ اور انجام اتم وغیرہ) یہ بھی اس کے اپنے منہ آپ جھوٹا ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔

اس سلسلہ کی مرزا کی ایک اور زبردست شہادت لیجئے

اپنے بعض مخالفین کو مخاطب کر کے لکھا کہ طاعون ، ہیضہ عذاب خدا وندی ہیں۔ تم مکڈ مین ہو ۔سن اللہ کے موافق یہ مہلک بیماریاں تم پر میری زندگی میں وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں کذاب اور مفتری ہوں (ملخصاً) ()22

مخالف کو تو کچھ نہ ہوا وہ چالیس سال زندہ رہا البتہ خود مرزا اس کے ایک سال بعد ہیضہ میں مبتلا ہو کر آنجہانی ہو گئے ۔ مرزا کے خسر میر ناصر قادیانی کا بیان ہے کہ مرنے سے ایک دن پہلے اسے اسہال لگے قادیانی نے میر ناصر مذکور سے خود کہا: میر صاحب مجھے وہائی ہیضہ ہو گیا ہے۔ (حیات، ناصر مرتبہ شیخ یعقوب علی عرفانی) یہ بھی اپنے منہ آپ کذاب و مفتری ہونے کی دلیل ہے۔

دلیل نمبر ۴۷ ( مناظرہ سے راہ فرار ):

سچا نبی اعلاء حق میں مناظرہ سے راہ فرار اختیار نہیں کرتا جیسا کہ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام اور حضرت موسیٰ کلیم علیہ التحیۃ والتسلیم کے نمرود اور سحرہ فرعون کے ساتھ ہونے والے مناظ مناظروں اور مقابلوں کے واقعات سے عیاں ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ موجود ہیں ۔ (پس البقرة آیت ۲۵۷ ، پ ۶ اله آیت ۴۹ تا ۷۲، پ ۱۹ الشعراء آیت ۱۸ تا ۵۱ )

نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وُرُسُلِی 22
اللہ کے ہاں یہ بات اٹل ہے کہ وہ اور اس کے پیغمبر حجت میں کبھی مغلوب نہیں ہو سکتے ہمیشہ غالب رہتے ہیں۔

لیکن مرزا قادیانی نے ہمیشہ اہل حق کے مقابلہ سے راہ فرار اختیار کی ہے۔ چنانچہ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ صاحب المعجزات ہے اس کا ایک معجزہ یہ ہے کہ وہ بہت زودنویس ہے وہ کہتا تھا کہ کئی آدمی میرے مقابلہ میں بٹھا دو وہ بھی لکھیں، میں بھی لکھوں گا مقررہ وقت میں ، میں ان سب سے زیادہ لکھائی کرلوں گا۔

حالانکہ بغرض تسلیم یہ پریکٹس اور مشق تھی جو کوئی بھی کر سکتا ہے، کچھ ایسے بھی ہوں گے اور ہو سکتے ہیں جو مرزا سے بھی تیز تحریر ہوں تو کیا وہ بھی نبی بن جائیں گے جبکہ ایسا کام کرنے والا متی (انشاء پرداز ) ہوتا ہے نبی نہیں ۔

ہر چھوٹے بڑے کو پر کیٹس ہے کہ رات کو کھانے کے دوران لائٹ چلی جائے تو لقمہ کبھی منہ کی بجائے ناک اور کان میں نہیں جاتا تو کیا اسے کمالات روحانیہ میں شمار کیا جائے۔

المختصر بات تو صریح البطلان تھی لیکن وہ اس اپنا مزہ مار کرتاتھا۔ اللہتعالیٰ کروڑ رہا متیں نازل فرمائے حضرتقد و اسالکین زبدة العارفین مقدام العلماء الراين حضرت ولانا علامہ قبلہ پیرسید مہر علی شاہ صاحب گولڑوی چشتی کی تربت انور پر، آپ نے محکم کاروائی فرماتے ہوئے بر وقت اقدام فرمایا اور چوک دال گراں لاہور میں اس کے چیلنج کو قبول فرماتے ہوئے اسے للکارا اور فرمایا نکل آؤ میدان میں ۔ مناظرہ اس طرح سے ہوگا کہ اجتماع عام میں تم بھی ٹیبل پر اپنا کاغذ قلم رکھ دو میں بھی اپنا کاغذ قلم رکھ دیتا ہوں۔ تم اپنے قلم سے کہو کہ لکھ ۔ میں اپنے قلم کو لکھے کا کہوں گا جس کا قلم خود بخود اٹھ کر لکھنا شروع کر دئے وہ سچا ہوگا اور جس کا قلم پڑا رہے اور کہنا نہ مانے وہ جھوٹا ہوگا۔ پھر تم نبی ہونے کے مدعی ہو، میں اپنے نبی کے غلاموں کے غلاموں کا بھی غلام ہوں ۔ اب تمہیں فکر نہیں ہونی چاہیے۔ نکل آؤ میدان میں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

اسے اپنی جیت اور پوزیشن معلوم تھی جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَهَ وَلَوْ الْقَيَ مَعَاذِيرَه 22
انسان دوسروں کے سامنا ے جتنی بھڑ کیں مارے اسے خود کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کہتے پانی میں ہے۔

بناء بریں قادیانی لا ہور سے بھاگا اور قادیان میں جا کردم لیا اور عذر گناہ بدتر از گناہ ۔

کے طور پر وجہ یہ بیان کی کہ لوگ جوش میں تھے مجھے اپنے کل کا اندیشہ تھا میں اس لئے بھاگ گیا۔ یہ بھی دعوی نبوت میں اس کے جھوٹے ہونی کی روشن دلیل ہے۔

دلیل نمبر ۴۸ ( قادیانی فتیح شکل تھا )

کوئی بھی نبی معاذ اللہ بدصورت نہیں ، سب حسن و جمال کے پیکر تھے جیسا کہ حدیث صحیح میں مصرح ہے۔

علاوہ ازیں نبی داعی الی اللہ ہوتا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر اس سے مانوس ہوں متنفر نہ ہوں یعنی اس سے بھاگنے کی بجائے جوق در جوق کھنچے چلے آئیں ۔ یہ بات خود ہمارے تجربہ میں بھی آئی تھی ۔ کہروڑ پکا میں غیر مقلدین وہابیہ نے ہمیں مناظرہ کا چیلنج کیا ، ہم ضروری کتابیں لے کر وہاں پہنچے، مناظرہ اعظم شیخ القرآن استاذ العلماء حضرت مولانا علامہ محمد منظور احمد فیضی رحمۃ اللہ علیہ نے فقیر کو مناظرہ کے طور پر رکھا آپ خود بھی ساتھ تشریف لے گئے تھے ۔ اس موقع کی جو بات اس وقت لائق ذکر ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں نے کہا کہ مناظرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم نے فریق ثانی کے مناظرین کی شکلیں بھی دیکھ لی ہیں جن پر پھٹکار پڑی ہوئی ہے اور تمہارے چہرے بھی دیکھ رہے ہیں پتہ چلتا ہے واقعی حضور صلی الہ ہم کے حسین کے چہرے ہیں۔

حضرت الاستاذ علیہ الرحمۃ حسن ظاہر میں بھی اپنی مثال آپ تھے جن پر انوار کا پہرہ تھا الغرض تبلیغ احکام کے مؤثر بنانے میں حسن ظاہر کا بھی دخل ہوتا ہے اس لئے سب انبیاء کرام علیہم السلام حسن الوہیت کے جلووں کے مظہر تھے ۔ اسی لئے حضرت عبداللہ بن سلام جب حضور سید عالم صلی علیم کی خدمت میں کلمہ پڑھنے کے لئے بالکل پہلی مرتبہ حاضر ہوئے ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ صادر ہوئے ۔ پس یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔

لیکن مرزا قادیانی انتہائی قبیح شکل تھا یہ بھی اس کے اس دعوئی میں جھوٹے ہونے کی مؤید ہے بلکہ کہتے ہیں کہ وہ یک چشم بھی تھا اور کم از کم یہ کہ ایک آنکھ بالکل چھوٹی اور تقریبا مری ہوئی تھی۔ ظاہر ہے یہ بھی غیب ہے جبکہ نبی کا ایسے عیوب سے پاک ہوناضروری ہے الما مر انفاً)

اور واضح بات ہے کہ ایک بتی والا ٹرک بھی ہو تو رات میں وہ بھی ایکسڈنٹ کرتا ے تو گر مدعی بوت ایسا ہوتو وہ کتوں کی جانیں لےگا اور کیا کچھ نقصان کرے گا با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

لطیفہ:

مناظر اسلام عالم اہل سنت قاطع قادیانیت حضرت مولانا نواب الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا قادیانی سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ اگر خدا نے آج کے دور میں کسی کو نبی بنانا تھا تو تیرے جیسے بدصورت کو کیونکر بنایا اور میرے جیسے حسین چہرے والے کو کیوں نظر انداز کر دیا ( حضرت چشتی صاحب بہت حسین و جمیل تھے )

دلیل ۴۷ ( قادیانی دماغی بیماریوں میں مبتلا تھا ) :

قادیانی کو کئی مہلک امراض لاحق تھے جسے شدید قسم کی ذیا بطیس وغیرہ جس کے نتیجہ میں اسے سخت دماغی بیماری بھی ہوگئی اور ہ خود کہا تھا کہ مجھے مالیخولیا اور عراق ہے جس سے بندے کا توازن صحیح نہیں رہتا۔

جبکہ یہ سخت عیب ہے جس سے نبی کا پاک ہونا لازم ہے کیونکہ دماغ کنٹرول میں نہ ہو تو پاگل پن کی کیفیت ہوتی ہے نتیجہ ہندہ کہنا کچھ چاہتا ہے لیکن منہ سے کچھ نکلتا ہے یہ بھی اس کے دعوٹی نبوت میں جھوٹے ہونے کی دلیل ہے اور عین ممکن بلکہ قرین قیاس ہے کہ اس کے دعوی نبوت کے الفاظ اس کے مالیخولیا اور مراق کی بیماری کا نتیجہ ہوں، وہ کہنا کچھ اور چاہتا ہو مگر زبان سے کچھ اور صادر ہوتا ہو لیکن اسے معذور بھی نہیں کہا جات نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ عام حالات میں بھی اسی پر بضد رہا۔

دلیل ۵۰ ( نا پاک چیز کھانا ):

بخت زیابطیس کے باعث قادیانی کو رات کو بیسیوں با واش روم جانا پڑتا تھا، موسم سرما میں پانی کا بار بار استعمال مضر تھا اس لئے وہ کوٹ کی جیب میں مٹی کے ڈھیلے رکھتا جنہیں خشک کر کے دوبارہ جیب میں محفوظ کر لیا جاتا۔ ؟

کہتے ہیں بسا اوقات شوگر ڈاؤن ہو جاتی تو اسے لیول پر لانے کے لئے میٹھی چیں ؟

جانا پڑتا اس لئے بغرض آسانی دوسری جیب میں گڑ کے ٹکڑے رکھتا تھا ، اب اس کی جو رمانی کیفیت تھی اس کی تفصیل بھی گزری ہے لہذا وہ بھی کبھی گڑ کی بجائے مٹی کے دو ڈھیلے بھی کھانے لگتا تھا کیونکہ بولی شوگر کے باعث وہ ڈھیلے میٹھے ہو چکے ہوتے تھے (واللہ تعالى اعلم ورسوله بالصواب)

بر تقدیر ثبوت یہ بھی اس کے دعوئی نبوت میں جھوٹے ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس حوالہ سے قرآن ، پیغمبروں کی شان اس طرح بیان فرماتا ہے :

يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالَحاً (پ ۱۸ المومنوں )
یعنی اللہ نے اپنے نبیوں سے فرمایا تھا: تم طیب چیزیں کھا سکتے اور نیک اعمال ہی کر سکتے ہو۔

اس کی تائید ابو داؤد شریف وغیرہ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ حضور سرور عالم منا الی ایک خاتون کی کھانے کی دعوت پر تشریف لے گئے صحابہ کرام کا جم غفیر بھی ساتھ تھا۔ جب کھانا شروع ہوا تو آپ نے سالن کی ایک بوٹی دین پاک میں رکھی پھر اسے باہر نکال دیا اور فرمایا یہ بوٹی مجھے کہتی ہے میں ایسی بکری کی بوٹی ہوں جسے اس کے مالک سے پوچھے بغیر ذبح کیا گیا ہے۔

داعی خاتون نے تصدیق کی کہ واقعی ایسے ہی ہے کیونکہ میری بکریاں دور چرنے گئی ہوئی تھیں، پڑوسی سے بے تکلفی تھی ، ایک دوسرے کی چیز یں دوسرے کی چیزیں ہم ایسے ہی لے لیا کرتے ہیں اس کی بکری لے کر ذبح کر کے پکائی ہے وہ بھی غیر موجود تھا اس لئے پوچھ نہ سکے۔

صلى الله تعالى على اطيب الطيبين واطهر الطاهرين و قدس المقدسين وعلى آله وصحبه اجمعين

دلیل غیر رم دور سے انہیں ویانا مرزا قادیانی فریم مروت سے ہم دبواتا تھا۔

یہ بھی اس کے اس دعوی میں جھوٹے ہونے کا قرینہ ہے کیونکہ یہ امر شان نبوت کے مانی ہے ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضر سرور عالم ان ایام کے تعلق فرماتی ہیں:

مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ

یعنی آپ کا ہاتھ مبارک کبھی کسی غیر محرم عورت کے ہاتھ ( جسم ) کو نہیں لگا۔ اس لئے آپ خواتین کو بیعت میں لیتے وقت ان کے ہاتھوں میں ہاتھ نہ دیتے، صرف زبانی تمہید لیے مالی می رویم

دلیل ۵۲ ( واش روم میں موت ):

کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی موت واش روم ( لیٹرین) میں آئی ۔ اگر یہ ثابت ہے تو یہ بھی اس کے دعوی نبوت میں سخت جھوٹے ہونے کی دلیل ہے کیونکہ یہ امر بھی عظمت نبوت کے منافی ہے۔

اور جو بات یہاں خاص طور پر لائق توجہ ہے، وہ یہ ہے کہ اگر مرزائی اپنے مرزا کو واقعی نبی سمجھتے تھے تو انہوں نے اسے ادھر ہی دفن کیوں نہیں کیا جہاں اس کی موت واقع ہوئی کیونکہ نبی کی تدفین اس کی وفات کے مقام پر کی جاتی ہے۔

اب اگر مرزائی ، مرزا کو جائے موت ( جس کا ذکر آ گیا ہے ) میں دفن کرتے تو بھی یہ اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل بنتی۔ وہ اسے وہاں قادیان لے گئے تو بھی یہ اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل بن رہی ہے (ويمن ان يكون هذا من الخطابيات فلتيأمل) الحمد للہ بحث کی آخرشق بھی مکمل ہوئی اس طرح سے رسالہ خدا اپا یہ تکمیل کو پہنچا۔

پوری بحث کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ :

(۱) حضور نبی کریم ملی ای ام قرآن مجید کی نص صریح کی رو سے خاتم النبیین ہیں۔

(۲) آیات قرآنیہ نیز کتب سماویہ میں ارشادات ربانیہ ملائکہ کرام، انبیاء ورسل کرام علیہم السلام کے فرامین عالیہ، خود حضور نبی کریم ملی ای ایم کی احادیث صحیحہ کثیرہ متواترہ، دلائل شرعیہ و عقلیہ ، پوری امت مسلمہ کے اجماع و اتفاق ( یعنی جملہ صحابہ واہل بیت عظام نیز تابعین واتباع کرام ائمہ مجتہدین اور صوفیاء فقہاء ومحدثین و متکلمین و علماء اسلام کے متفقہ فیصلوں اور ان کی تصریحات ) کے مطابق خاتم النبیین کا معنی آخر النبیین ہی ہے اور

(۳) یہ عقیدہ ضرورت دین سے ہے جس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔

(۴) بناء علیہ مرزا قادیانی اپنے دعوی نبوت میں قطعی طور پر چھوٹا ہے۔

لہذا مرزا قادیانی اور اسے ماننے والے سب لوگ خواہ وہ لاہوری مرزائی ہوں یا قادیانی کافر و مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ایسے کہ جو ان کے کفر و عذاب میں شک کرے، وہ بھی انہی جیسا ہے۔

فقط والحمد لله رب العالمين والصلواة والسلام على خاتم النبيين سيدنا ومولانا وحبيبنا محمد وعلى اله واصحابه واتباعه وعلينا معهم اجمعين

نوٹ:

تحریر رسالہ کا آغاز حرم مکی میں ہوا تکمیل حرم مدنی میں ہوئی زادهما الله تعظيماً وتشريفاً وتكريماً کیونکہ حاضری کا حکومت کی جانب سے شیڈول اسی ترتیب سے تھا۔


  • 1 آل عمران ،81/3
  • 2 احقاف ،26/3
  • 3 الاحزاب ،33/ 20
  • 3 البقرۃ ،2/ 213
  • 3 ص ٤٢ ۔ ٤٣ بحواله احمد ترمذی حاکم، طبراني وابو يعلى وغيرهم عن عقبة وابن عمرو الحذرى وغيرهم رضى الله عنهم
  • 3 مجدد اسلام، از علامہ نسیم بستوی،ص:33،32
  • 3 صحیح بخاری ج طبع كراچی البدايه والنهايه ج:5، ص: ٥٠،٤٩ بحوالہ صحیح بخاری طبع بیروت
  • 3 ج: ۵ ص : ١٤،١٢،۱۱،۱ طبع بیروت
  • 3 ج ۵ ص : ١٤،١٢،۱۱،۱ طبع بیروت
  • 3 رواه احمد والطيالسي وابن ماجه وابو يعلى عن ابن عباس رضى الله عنهما ، ختم النبوة لا على حضرت عليه الرحمة ص :14
  • 3 المائدۃ،6/5
  • 3 الانعام،38/6
  • 3 البقرۃ،253/2
  • 3 یوسف ،6/12
  • 3 الضحی ،4،5/93
  • 3 الانشراح ،4/94
  • 3 الکوثر ،1،2،3/108
  • 4 النساء ،82/4
  • 5 البقرۃ ،2/ 24
  • 6 آل عمران ،3/ 81
  • 22 ختم النبوة ص: ۱۵ تاليف منف اعلیٰ حضرت عليه الرحمة بحواله ابو نعيم و ابن عساكر عن ابي هريره رضى الله عنه مرفوعاً
  • 22 ختم النبوة ص: ١٥ ص :١٦ بحواله دلائل النبوة الابي نعيم عن عبد الرحمن الاشعرى مرفوعاً
  • 22 ختم النبوة ص :٤٠ بحواله طبرانی، ابن عدی، حاکم، بیهقی و ابن عساكر عن سبادانا عمرو على وعائشه وابي هريره رضى الله عنه
  • 22 ختم النبوة ص ۷۳۰۷۲ بحواله ابن حبان، ابن عساکر، ابو نعیم وغيرهم عن معاذ رضی الله عنه وغيره
  • 22 اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ص :۴
  • 22 اربعین ج: ٣ ص :٧٠٦
  • 22 ازالہ اوھام ص: ۱۷۴
  • 22 المائدۃ :12/5
  • 22 انجام آتھم ص ۳۱ حاشیہ
  • 22 اخبار الحکم قادیان ۷ ستمبر ۱۹۲۳ء
  • 22 تبلیغ رسالت ج:۱۰،ص: ۱۲۰
  • 22 المجادلۃ،21/
  • 22 القیمۃ ،75/ 14،15

Netsol OnlinePowered by