خلیفہ سوم مرزا ناصر احمد کے انتقال کے بعد ارجون ۱۹۸۲ء میں صاحبزادہ مرزا طاہر احمد جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ بنائے گئے۔
کہتے ہیں کہ ۱۹۰۷ء میں کسی نے خواب میں دیکھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا مبارک احمد کی شادی ہورہی ہے، جب کہ ان کی عمر اس وقت آٹھ سال سے زیادہ نہ رہی ہوگی ۔ مرزا قادیانی نے اس کی تعبیر موت سے کی، تاہم یہ بھی کہا کہ اگر کسی خواب کے عین مطابق عمل کر دیا جائے تو بعض اوقات تعبیر مل بھی جاتی ہے۔ اس لیے ہم اس کی شادی کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر سید عبد الستار کی ڈھائی سالہ بیٹی مریم سے اپنے بیٹے کی شادی کے لیے مرزاغلام احمد قادیانی نے رشتہ مانگ لیا۔ وہ انکار نہ کر سکے اور ۳۰ اگست ۱۹۰۷ء کے دن ڈھائی سالہ دلہن اور آٹھ سالہ دولہا رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔ تاہم چند دنوں بعد ۶ استمبر ۱۹۰۷ء میں مرزا مبارک احمد کی موت ہو گئی اور ڈھائی سالہ دلہن بیوہ ہو گئی۔
قریبا ۱۴ سالوں بعد ے رفروری ۱۹۲۱ء میں مرزاغلام احمد قادیانی کی خواہش کے مطابق ان کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے مریم سے شادی کر لی ۔ اسی مریم کے بطن سے صاحبزادہ مرزا طاہر احمد ۱۸ رد عمبر ۱۹۲۸ء میں پیدا ہوئے۔ 1
مرزا طاہر احمد نے تعلیم کا آغاز تعلیم الاسلام اسکول قادیان سے کیا لیکن پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی ۔ ان کی والدہ چاہتی تھیں کہ وہ حافظ قرآن بھی بنیں اور ڈاکٹر بھی ، تاہم نہ یہ خواہش پوری ہوئی اور نہ وہ ۔ بس گھر کے ماحول سے متاثر ہو کر ہو میو پیتھک دواؤں سے متعلق معلومات حاصل کرنے لگے ۔ دھیرے میرے کچھ تجربہ بھی ہو گیا اور وہ با قاعدہ بیماروں کے لیے دوائیں تجویز کرتے ۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کریم کا ترجمہ بھی کیا ہے ، جو شائع ہو چکا ہے ۔ یہاں یہ اقتباس پڑھنے کے قابل ہے۔
آپ نے قرآن کریم کا ترجمہ بھی کیا، جو شائع شدہ ہے۔’’ اس طرح حافظ قرآن بننے والی خواہش بھی ایک رنگ میں پوری ہوئی ۔ “ 2
ہو سکتا ہے متذکرہ عبارت سے آپ کو حیرت ہو لیکن مجھے قطعی کوئی حیرت نہیں ہے۔ بات کو موڑ تو ڑ کر اپنے حق میں کرنے کے فن میں روئے زمین پر سب سے زیادہ مہارت اگر کسی جماعت کو حاصل ہے ، تو وہ احمدی جماعت ہی ہے ۔ زبان سے کچھ نکل جائے اور عمائدین جماعت اسے درست ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔ اب یہی دیکھیے کہ ماں تو چاہتی یہ تھیں کہ بیٹا حافظ قرآن بنے اور بیٹے نے قرآن پاک کا ترجمہ شائع کر دیا ، تو کہا جارہا ہے کہ ماں کی زبان سے نکلی ہوئی خواہش پوری ہو گئی ، جب کہ ترجمہ قرآن اور حفظ قرآن، دونوں بالکل علیحدہ علیحدہ میدان ہے۔
اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں ڈاکٹر بنانے کی خواہش سے مراد ایلو پیتھک دواؤں کی اعلیٰ تعلیم ہے، جو ایم بی بی ایس یا ایم ڈی کے نام سے مشہور ہے۔ اس لیے سچی بات یہ ہے کہ ماں کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہو سکی، تاہم جوش عقیدت میں ہومیو پیتھک دوا دینے کی سوجھ بوجھ ہو جانے کو ماں کی خواہش پوری ہونے سے منسلک کر دیا گیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ خانوادہ قادیانیت کے کسی بھی فرد کے منہ سے کچھ نکل جائے اور نتیجہ صد فی صد بالعکس ظاہر ہو، جب بھی اسے درست ثابت کر کے ہی دم لینے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔
’’علمائے کرام ، سیاسی عمائدین اور عوام پاکستان کی مشترکہ تحریک کے نتیجے میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سر پرستی میں پارلیامنٹ کے ذریعہ ۱۹۷۴ء میں باقاعدہ آئین پاکستان میں ترمیم کی گئی اور صاف طور پر لکھا گیا۔آئین کی دفعہ ۲۶۰ میں شق (۲) کے بعد حسب ذیل نئی شق درج کی جائے گی ، یعنی (۳) جو شخص حضرت محمدﷺ ، جو آخری نبی ہیں ، کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا، یا جو حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے، یا کسی ایسے مدعی کو نبی یاد دینی مصلح تسلیم کرتا ہے، وہ آئین یا قانون کے اغراض کے لیے مسلمان نہیں ہے۔ “ 3
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب تک بھٹو مسند اقتدار پر رہے ، احمدی جماعت اپنی ہزیمت و شکست کے احساس سے خاموش رہی، لیکن جب ۱۹۷۹ء میں انہیں پھانسی دے دی گئی اور حالات قدرے پر سکون ہوئے ، تو انہوں نے حکومت پر قبضہ کرنے کی خفیہ سازش شروع کر دی۔ اس پس منظر میں سابق قادیانی زاہد عباس سید کی روایت سینے؟
جنرل ضیاء الحق ۱۹۷۷ء میں آئے تھے اور مرزا ناصر احمد کے دور ۱۹۸۲ء تک انہوں نے قادیانی جماعت کو کچھ بھی نہیں کہا۔ مرزا ناصر احمد کی وفات کے بعد مرزا طاہر احمد اقتدار پر آئے تو انہوں نے آتے ہی تند و تیز خطبات اور تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیا اور جماعت کو ایسا تاثر دینا شروع کیا کہ قادیانی اقتدار کے دن قریب آگئے ہیں ۔ انہوں نے پاکستان میں اپنے آخری رمضان کے خطبے میں بڑے جوش سے کہا کہ اے احمد یو! اس رمضان کو اپنی دعاؤں سے فیصلہ کن رمضان بنا دو۔ چنانچہ وہ رمضان فیصلہ کن رمضان ثابت ہوا اور امتناع قادیانیت آرڈینینس کے نتیجہ میں مرزا طاہر احمد ملک سے برقعہ پہن کر فرار ہو گئے ۔ “ 4
جماعت احمدیہ کی اطلاعات کے مطابق مرزا طاہر احمد رات کی تاریکی میں KLM کی فلائٹ سے روانہ ہوئے اور ہالینڈ ہوتے ہوئے برطانیہ آگئے۔ یہاں سے وہ بیرونی ممالک میں جماعت کی شاخیں قائم کرتے رہے اور اپنی آخری سانس تک پاکستان واپس آنے کی جرات نہ کرسکے۔
چوتھے خلیفہ مرزا طاہر احمد نے 1991ء میں صد سالہ پروگرام میں شرکت کے لیے قادیان کا سفر کیا تھا۔ سفر سے پہلے وہ ایک عجیب و غریب خواب بیان کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ حصہ پڑھیے۔
’’میں نے دیکھا کہ میں مسجد مبارک ربوہ میں جاتا ہوں، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک بہت بڑی تقریب ہو رہی ہے، جس میں تمام انبیاء علیہم السلام شامل ہیں ۔ مجھے طبعی طور پر آنحضرت ﷺ کی تلاش ہوتی ہے کہ ایسی عظیم الشان تقریب ، جس میں تمام انبیاء جمع ہیں ، تو اس میں آنحضرت ﷺبھی ضرور ہوں گے۔ چنانچہ میرے دل میں طبعی خواہش ہے کہ میں آپ کو دیکھوں ، مگر مجھے بتایا جاتا ہے کہ اس دور میں آنحضرت ﷺ کی نمائندگی حضرت مسیح موعود کر رہے ہیں ، اس لیے آنحضرتﷺ تشریف نہیں لائے .... مسجد میں چونکہ انبیاء
ہی پھر رہے تھے، اس لیے جو بھی حضرت مسیح موعود کے ارد گرد بیٹھے ہیں، وہ غالبا ان انبیاء
میں سے ہی ہیں۔ “ 5
اس کی تشریح کرتے ہوئے مرتب کتاب نے جو تبصرہ کیا ہے ، وہ خون کے آنسوؤں کی رفاقت میں پڑھنے لائق ہے۔
حضرت مسیح موعود کا امام کے طور پر اس طرح بیٹھنا کہ سب انبیاء
آپ کے ارد گرد مقتدیوں کی طرح بیٹھے ہوئے تھے۔ 6
العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ ، دیکھ رہے ہیں آپ ! صرف ایک نبی کی تو ہیں نہیں ہو رہی ہے، بلکہ ایک ہی جھٹکے میں سارے انبیائے کرام مقتدی بنائے جارہے ہیں، تا کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے لیے مسند امامت ثابت کی جاسکے۔
’’ہندوستان میں دوران قیام گاہے بگا ہے خطابات ہوتے رہے ۔ اسی طرح ۳ ج ۱۹۹۲ء کو مسجد قادریان، ہندوستان میں ایک خطاب کیا۔ اس میں یہ فقرہ توجہ طلب ہے۔ جنوری ۔ یہی قادیان کی بستی ہے، اس میں صبح کے وقت آپ تہجد کی نماز کی تلاوت بھی لاؤڈ سپیکر پر سنتے تھے۔ یہاں بھجن بھی ساتھ گائے جارہے تھے ۔ یہاں گرودواروں سے تقریریں بھی کی جارہی تھیں ۔ میوزک بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ عیسائی بھی اپنے اپنے رنگ میں اپنے خدا کو یاد کر رہے تھے اور کبھی نہ کسی احمدی کو اس سے تکلیف ہوئی ، نہ کسی غیر احمدی کو نہ ہندو کو نہ سکھ کو ، سارے اس بات پر خوش تھے کہ جس کو جس طرح بھی توفیق مل رہی ہے ، آخر وہ خدا کو یاد کر رہا ہے ۔ ہمیں کیا حق ہے کہ اس پر اعتراض کریں ۔ “ 7
یہاں چند جملے نہایت ہی توجہ سے پڑھنے کے قابل ہیں؟ کبھی نہ کسی احمدی کو اس سے تکلیف ہوئی ۔
سارے اس بات پر خوش تھے کہ جس کو جس طرح بھی توفیق مل رہی ہے، آخر وہ خدا کو یاد کر رہا ہے۔
ہمیں کیا حق ہے کہ اس پر اعتراض کریں۔
کہیے ، شہنشاہ اکبر کی سر پرستی میں رائج ہونے والے تصور دین الہی کے مرکزی نکات
اور کیا تھے؟ یہی تو تھے کہ معاذ اللہ ، سارے ادیان و مذاہب درست ہیں ۔ لہذا قادیانیت کو بھی سابقه دین الہی کی جدید صورت سے تشبیہ دی جائے، تو قطعی بے جانہیں ۔
بہت ممکن ہے کہ آپ کے لیے متذکرہ جملے حیرت انگیز ہوں ، تاہم میرے لیے قطعی نہیں کہ جو اسلامی عقیدہ کے بنیادی حصہ سے بغاوت کرلے ، وہ پورے اسلام کا بھی باقی ہو جائے تو حیرت کیسی!
یہ امر مخفی نہ رہے کہ مذہب اسلام کے مطابق غیر خدا کی پرستش کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں ہے، بلکہ ایک لمحہ کے لیے بھی کوئی مسلمان غیر خدا کی پرستش سے راضی ہو جائے تو بلا شک وشبہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ، اس لیے کہ کفر سے راضی ہونا بھی کفر کرنے کے مترادف ہے ۔ خیال رہے کہ کبھی کبھی ہمارے سامنے غیر خدا کی پرستش ہوتی رہتی ہے اور ہم خاموش رہتے ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم ایسے مذموم رسم و رواج سے راضی ہیں، بلکہ اسے دل سے برا جانتے ہیں اور جانتے رہیں گے۔
اچھا بات صرف اس پر بس نہیں کہ غیر خدا کی پرستش سے کسی قادیانی کوکوئی تکلیف نہیں پہنچتی ، بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسے غیروں کے طریقہ پرستش سے خوشی محسوس ہوتی ہے اور پھر نہم و فراست سے مخاطب ہو کر پوچھا بھی جا رہا ہے کہ انہیں اعتراض کرنے کا حق ہی کیا ہے؟
اے کاش اخلاص کے ساتھ حدیث سے راہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے تو معلوم ہوتا کہ آپ ﷺنے نہایت ہی صراحت کے ساتھ فرمایا ہے؟
من رأى منكم منكر ا فليغيره بيده ، فان لم يستطع فبلسانه ، فان لم يستطع فبقلبه ، وذلك اضعف الايمان8
یعنی تم میں سے کوئی خلاف شریعت امر دیکھے ، تو چاہیے کہ وہ طاقت کے زور پر اپنے ہاتھوں سے اسے روک دے، اور اگر اس کی استطاعت نہیں ہے، تو پھر زبان سے منع کرے، پھر اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے برا جانے ، اور یہ ایمان کا سب سے نچلا درجہ ہے۔
سرکار دو عالم ﷺنے برائی دیکھنے کے حوالے سے ایک ایسا ضابطہ بنا دیا ہے، جو ہر درجہ کے مسلمانوں کے لیے کافی ہے ۔ اگر صاحب اقتدار مسلمان برائی دیکھے ، تو اسے طاقت کے زور پر روک دے۔ اور اگر ایسا مسلمان برائی دیکھے، جو طاقت سے روکنے کی اہلبیت نہیں رکھتا مگر زبان سے نصیحت کر سکتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ زبان سے گناہوں سے بچانے کی کوشش کرے، پھر اگر ایک ایسا مسلمان ہے ، جس میں طاقت سے روکنے کی صلاحیت موجود نہیں اور زبان سے نصیحت بھی نقصان دہ ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ کم از کم دل سے اسے برا سمجھے۔
مرزا طاہر احمد کی موت ۱۹ اپریل ۲۰۰۳ء کو برطانیہ میں ہوئی ۔ اس کے بعد ۲۲ را پریل ۲۰۰۳ء کو مرزا مسرور احمد جماعت احمد یہ کے پانچویں خلیفہ بنائے گئے۔
گذشتہ اوراق میں آپ نے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا کہ چوتھے خلیفہ مرزا طاہر احمد بھی اپنے آباء واجداد ہی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور نئے نئے الہامات، بشارات اور خواب کے سہارے جماعت احمد یہ سے جڑے ہوئے لوگوں کو فریب دیتے رہے۔
چلتے چلتے ایک راز کی بات بتاتا ہوں ۔ آپ تاریخ انسانیت کا مطالعہ کر لیں ، جتنے بھی خود ساختہ اعلان نبوت کرنے والے گزرے ہیں، کبھی الہامات، بشارات اور خواب ہی کے سہارے اپنے افکار و خیالات کی ترویج کرتے ہوئے ملیں گے ۔ اور یہ اس لیے کہ تکالگانے سے دو فائدے ہیں ، ایک یہ کہ اگر بات درست ہوگئی ، تو واہ واہ ہو جائے ، اور اگر الٹ جائے ، تو یہ کہنے کی گنجائش باقی رہے کہ الہامات ، بشارات اور خواب کی تعبیر کے مدلولات جزوی طور پر مناسب نہیں سمجھے گئے تھے۔ یعنی دونوں صورتوں میں چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی ، یہ اور بات کہ قدرت الہی اپنے دین برحق کو باطل سے ممتاز کرنے کے لیے دوسرے آثار و قرائن سامنے رکھ دیتی ہے، تا کہ انہیں ترازو کے پلڑے پر رکھ کر حق و باطل ، صواب و خطا اور ہدایت و گمراہی کے درمیان امتیاز آسان تر ہو جائے ۔
(ماخوذ ۔۔۔ قادیانیت ایک تنقیدی مطالعہ ۔۔۔از ڈاکٹر غلام زرقانی قادری )