logoختم نبوت

ہمشکل مسیح کا مسئلہ اور اسلامی نقطہ نظر(سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ)

استفتاء:

اگر مسیح زندہ آسمان پر بلا ایذاءِ یہود چلا گیا تو وہ مسیح کا ہمشکل جو مصلوب ہوا تھا اس کی نعش کدھر گئی اگر وہ مصلوب کوئی اور تھا تو حواریوں کو اس کے چرانے کی کیا ضرورت تھی؟

الجواب:

بحکم آنکہ دروغ گوئی را حافظہ نہ باشد، پہلا الزام جو پیر صاحب پر لگایا تھا، یعنی اتباع قول عیسائیاں جلدی خیال سے جاتا رہا۔ اب فرمائیے یہ قول کس کا ہے اور صریح قول اللہ تعالیٰ کے مخالف ہے یا نہیں، دیکھووَ اِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ1 یعنی اے مسیح منجملہ ہماری نعمتوں کے ایک یہ بھی نعمت ہے تیرے پر کہ ہم نے بنی اسرائیل کو جب انہوں نے تیرے ایذا اور قتل کا ارادہ کیا، روک دیا اور تم کو ان کی ایذا سے بچا لیا۔ مسیح کا قبل الرفع ۳۳ سال کا ہونا یا 120 یا 150 کہیں قرآن میں مذکور نہیں۔ ہم کو حواریوں سے کیا مطلب۔ آپ ہی چونکہ اُن کے تابع ہیں اُن سے دریافت فرما لیویں۔ خیر تبرعاً ہم ہی سمجھا دیتے ہیں۔ جب حواریوں کو ابتدا میں صلیب پر چڑھانے کے وقت دھوکا لگا تو مطابق اس زعم اپنے کے نعش مصلوب کو بھی قبر سے چرایا۔ یہ سوال آپ صلیب پر چڑھانے کے وقت کرتے تو اتنی لیاقت ظاہر نہ ہوتی مگر آپ نے پہلے ہی سر اشتہار پر صاف لکھ دیا ہے۔

چو در بستہ باشد چہ داند کسے
چو در بستہ باشد چہ داند کسے
کہ جوہر فروش است یا پیلہ ور

جوہر فروشی تو نہیں البتہ نیلوفر وبنفشہ فروشی آپ کی پنڈی سے ہر ایک دیکھ رہا ہے۔

( الافاضات السنیۃ الملقب بہ فتاوی مہریہ ،ص:60،مکتبہ مہر منیر گولڑہ)


  • 1 المائدۃ: 110/5

Netsol OnlinePowered by