بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
نحمده ونصلى على رسوله الكريم
جناب حضرتنا، شيخنا، سيدنا ومولانا، زبدة المحققین ورئیس العارفین بعد سلام علیکم کے عاجز یوں گذارش کرتا ہے کہ فرقہ باطلہ مرزائیہ کی تائید میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے ایک معتقد مرزا ابو العطاء حکیم خدا بخش قادیانی نے ایک ضخیم کتاب ’’عسل مصفّٰی“ لکھی ہے۔ اس کتاب میں مرزا موصوف نے اپنے زعم میں وفات مسیح کو جہاں تک ہو سکا ثابت کیا۔ مرزا صاحب قادیانی نے تو ازالۂ اوہام مطبع ریاض ہند امرتسر 1308ھ کے صفحہ 591 تا 627 میں 30 آیات قرآنی سے وفات مسیح کا استدلال پکڑا مگر حکیم صاحب اپنے پیر سے بھی بڑھ کر نکلے یعنی انہوں نے ساٹھ آیات قرآنی سے وفات مسیح کا استدلال پکڑا۔ مثل مشہور ہے۔ ’’گرو جنہاں دے جاندے ٹپ۔ چیلے جان شڑپ“ راقم الحروف کی اکثر اوقات امرتسر کے مرزائیوں کے ساتھ گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ آپ کی کتاب ’’سیف چشتیائی“نے مجھے بڑا فائدہ دیا اور چند ایک مرزائیوں نے اسے پڑھا۔ چنانچہ حکیم الٰہی بخش صاحب مرحوم معہ اپنے لڑکے کے آخر مرزائیت سے توبہ کر گئے اور اسلام پر ہی فوت ہوئے اور باقی مرزائیوں کے دل ویسے ہی سخت رہے۔ سچ ہے کہ
خاک سمجھائے کوئی عشق کے دیوانے کو
زندگی اپنی سمجھتا ہے جو مر جانے کو
میری خود یہ حالت تھی کہ عسل مصفّٰی کو پہلی بار پڑھنے سے دل میں طرح طرح کے شکوک اُٹھے اور وفات مسح پر پورا یقین ہو گیا مگرالحمد للہ کہ آپ کی ’’سیف چشتیائی“اور’’شمس الہدایت“ نے میرے متذبذب دل پر تسلی بخش امرت ٹپکا۔ امید ہے کہ کئی برگشتہ آدمی اس سے ایمان میں تر وتازگی حاصل کریں گے۔ عرصہ ایک سال سے عاجز نے کمر بستہ ہو کر یہ ارادہ کر لیا ہے کہ ایک ضخیم کتاب بنا کر عسل مصفی کی تردید بخوبی کی جائے اور اس کی تمام چالاکیوں کی قلعی کھولی جاوے۔ چنانچہ راقم الحروف عسل مصفی کے رد میں ایک کتاب’’ صاعقہ رحمانی بر نخل قادیانی“ لکھ رہا ہے اور اس کے پانچ باب ترتیب وار باندھے ہیں۔ (1) حیات مسیح 15 فصلوں پر۔ (2) حقیقت المسیح 15 فصلوں پر۔ (3) حقیقت النبوت 15 فصلوں پر۔ (4) حقیقت المہدی 12 فصلوں پر۔ (5) حقیقت الدجال 8 فصلوں پر۔
مصنف عسلِ مصفّٰی نے چند ایک اعتراضات حیات مسیح اور رجوع موتیٰ پر کئے ہیں۔ عاجز ذیل میں وہ اعتراضات تحریر کر دیتا ہے اور آپ سے ان کے جوابات کا خواستگار ہے۔ میں نے امرتسر کے چند ایک عالموں مثلاً محمد داؤد بن عبد الجبار مرحوم غزنوی، خیر شاہ صاحب حنفی نقشبندی، ابو الوفاء ثناء اللہ وغیرہ سے ان اعتراضوں کے جواب پوچھے مگر افسوس کہ کسی نے بھی جواب تسلی بخش نہیں دیئے۔ اب امید ہے کہ آپ بخیال ثواب دارین ان اعتراضوں کے جواب تحریر فرما کر فرقہ مرزائیہ کے دام مکر سے اہلِ اسلام کو خلاصی دیں گے۔
عسل مصفّٰی لکھنے والے نے مسیح کے معجزات احیائے موتٰی، ابراہیم کے رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰى الخ1عزیر کے 100 سال کے بعد زندہ ہو جانے اور بنی اسرائیل کے 70 سرداروں کے زندہ ہو جانے سے صاف انکار کیا ہے۔ اور اس کی باطل تاویلیں کی ہیں۔ اور عدم رجوع موتٰے پر یہ آیات قرآنی پیش کئے ہیں۔
1۔ وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ2 (اور حرام ہے اس بستی پر جسے ہم نے ہلاک کر دیا کہ پھر لوٹ کر آئیں)
2۔ اَلَمْ یَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّهُمْ اِلَیْهِمْ لَا یَرْجِعُوْنَ3 (کیا انہوں نے نہیں دیکھا ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک کر دیا کہ وہ آج تک ان کی طرف لوٹ کر نہ آئے)
3۔ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّا اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىٕلُهَا وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ41 (یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آئے تو کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس پھیر دیجئے شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں ہرگز نہیں یہ تو ایک بات ہے جو وہ اپنے منہ سے کہتا ہے اور ان کے آگے ایک آڑ ہے اس دن تک جس میں اٹھائے جائیں گے)
4۔ اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَا فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى الخ5 (اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے ان کی موت کے وقت اور جو نہ مریں انہیں ان کے سونے میں پھر جس پر موت کا حکم فرما دیا اسے روک رکھتا ہے اور دوسری ایک میعاد مقرر تک چھوڑ دیتا ہے)
5۔ ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَیِّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ6 (پھر اس کے بعد تم ضرور مرنے والے ہو۔ پھر تم سب قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے)
خادم الاسلام محمد حبیب اللہ کٹڑہ مہاں سنگھ کوچہ ناظر قطب الدین۔ پاس مسجد غزنویاں امرتسر
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد لله وحده والصلوة والسلام على من لا نبی بعده و آله وصحبه
انکارِ معجزات، مرزا اور مرزائیوں سے کوئی نئی بات نہیں۔ فلاسفہ اور معتزلہ ان سے پہلے منکر چلے آئے ہیں۔ اور اہل السنت اپنی تفاسیر ومؤلفات میں جا بجا مع مالہا وما علیہا ان کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ آیات خمسہ ذیل میں (1) و حرام على قرية اهلكناها انهم اليهم لا يرجعون (2) الم يروا كم اهلكنا قبلهم من القرون انهم اليهم لا يرجعون (3) حتى اذا جاء احدهم الموت الخ (4) الله يتوفى الانفس الخ (5) ثم انكم بعد ذلك لميتون الخ بیان ہے اکثر یہ کا اور انتفاءِ امر طبعی کا یعنی موتٰے بحسب الطبع رجوع کو نہیں چاہتے کما قال (لا یرجعون) اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اگر اللہ تعالیٰ موتٰے کو اس عالم میں دوبارہ لائے تو بھی ناممکن اور غیر واقع ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ خرق عادت ہوگا نہ بر وفقِ عادت۔ اور قولہ تعالىٰ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا7 (اور تو اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائے گا) خرق اور وفق دونوں کو شامل ہے۔
والسلام خير ختام والحمد لله اولا وآخرا والصلوة والسلام منه باطناً عليه ظاهراً العبد الملتجى والمشتكى الى الله
المدعو بمهر علی شاه عفى عنه ربه
بقلم خود از گولڑه (18/ ذو الحجہ 1334ھ)
( الافاضات السنیۃ الملقب بہ فتاوی مہریہ ،ص:54،مکتبہ مہر منیر گولڑہ)