logoختم نبوت

مرزا قادیانی کے اقوال میں تاویل مسموع نہیں - (مفتی محمد جیش صدیقی برکاتی)

قادیانی پر شریعت کا تازیانہ:

مرزا اپنی کفریات کی بنا پر یقینا کافر و مرتد نہ ایسا کہ وہی کافر بلکہ جو اس کے اس عقیدہ ملعونہ اور اقوال مطرودہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، بلکہ جو اس میں شرک وتر دکوراہ دے وہ بھی کافر اور جو اس کی تکفیر میں چوں و چرا کرے وہ بھی کافر بلکہ جو اس کے ان اقوال یا ان کے امثال پر مطلع ہو کر تاویلات کے جھوٹے حیلے بہانے تلاشے وہ بھی کافر۔

شفار شریف ج:۲، ص: ۲۴۷ میں ہے:

نكفر من لم يكفر من دان بغير ملة المسلمين من الملل أو وقف فيهم اوشك
ہم ہر اس شخص کو کافر کہتے ہیں جو کافر کو کافر نہ کہے یا اس کی تکفیر میں توقف کرے یا شک رکھے۔

صریح لفظوں میں تاویل نہیں سنی جاتی ۔

فتاوی ہندیہ وغیر ہا میں ہے:

قال انا رسول الله اوقال بالفارسية من پيغمبرم يريد به من پيغام می برم یکفر
یعنی اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہے یا کہے کہ میں پیغمبر ہوں اور مراد یہ لے کہ میں کسی کا پیغام پہنچانے والا اپیچی ہوں کافر ہو جائے گا۔ (اس کی کوئی تاویل سنی نہیں جائے گی۔)

امام قاضی عیاض شفار شریف ج: ۲ص: ۱۹۱ پر فرماتے ہیں:

وقال احمد بن ابي سليمان صاحب سحنون من قال ان النبي صلى الله عليه وسلم كان ( معاذ الله معاذ الله ثم معاذ الله ) اسود يقتل وقال في رجل قيل له لا وحق رسول الله فقال فعل الله برسول الله كذا وذكر كلاماً قبيحاً فقيل له ما تقول يا عدو الله فقال اشد من كلامه الأول ثم قال انما اردت برسول الله العقرب فقال ابن ابی سلیمان للذي سئل أشهد عليه وانا شريكك يريد في قتله وثواب ذالك قال حبيب بن الربيع لأن ادعاء التاويل فى لفظ صراح لا يقبل
یعنی امام احمد ابن ابی سلیمان تلمیذ ورفیق امام مسحنون رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کہے کہ نبی ﷺ ( معاذ الله معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ) سیاہ فام تھے اسے قتل کر دیا جائے۔ انہیں سے ایک کمینہ شخص کی نسبت کسی نے پوچھا کہ اس سے کہا گیا تھا کہ رسول اللہ کے حق کی قسم تو اس نے کہا اللہ رسول اللہ کے ساتھ ایسا ایسا کرے اور ایک فتیح کلام ذکر کیا، پھر اس مردک سے کہا گیا اے دشمن خدا تو رسول اللہ کے بارے میں کیا بکتا ہے؟ تو اس سے بھی سخت تر لفظ بکا پھر بولا میں نے تو رسول اللہ سے بچھو مراد لیا تھا۔ امام ابن ابی سلیمان نے فتوئی پوچھنے والے سے فرمایا تم اس پر گواہ ہو جاؤ اور اسے سزائے موت دلانے اور اس پر جو ثواب ملے گا اس میں میں تمہارا شریک ہوں۔ (یعنی تم حاکم شرع کے حضور اس پر شہادت دو اور میں بھی سعی کروں گا کہ ہم تم دونوں بحکم حاکم اسے سزائے موت دلانے کا ثواب عظیم پائیں۔) امام حبیب ابن ربیع نے فرمایا یہ اس لیے کہ کھلے لفظ میں تاویل کا دعوی مقبول نہیں۔ انتھا

اس مردک نے رسالت عرفی کو معنی لغوی کی طرف ڈھالا کہ بچھو کو بھی خدا ہی نے بھیجا اور پر اور خلق پر مسلط کیا لیکن ایسی تاویل قواعد ش ما تاویل قواعد شرع کے نزدیک مردود ہے اس لیے کہ یہ تاویل نہایت دور کا ہے۔ جیسے کوئی اپنی عورت سے کہے تو طالق ہے اور کہے کہ میں نے تو یہ مراد لیا تھا کہ تو کھلی ہوئی ہے اور لغت کی آڑ لے کر کہے کہ لغت میں طالق کے معنی کشادہ ہیں (کھلی ہوئی) تو ایسی تاویل کی طرف التفات نہ ہوگا۔

گنگوہی، انبیٹھی ، نانوتوی، تھانوی، قادیانی کے اقوال کفریہ مذکورہ ایسے ہی صریحہ ہیں جن میں کوئی توضیح ، کوئی تاویل نہیں ہو سکتی، نہ سنی جاسکتی، ایسے لوگوں سے دور رہنے کی احادیث کریمہ اور آیات قرآنیہ میں سخت تاکیدیں آئی ہیں۔

(العطایا الالھیۃ فی الفتاوی البرکاتیۃ المعروف بہ فتاوی برکات ،حصہ سوم ،ص:99،100،مجمع البرکات اکیڈمی نیپال)

Netsol OnlinePowered by