مسئلہ:791(مولانا) محمد فارس مقیم امام مسجد المدینہ دی ہیگ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئد ملیں کہ اگر کوئی سنی مسلمان قادیانی عقائد سے باخبر ہونے کے باوجود کسی مرزائی قادیانی کو کا فر جانتے یا عند السوال کافر کہنے میں تامل کرے اسکے متعلق حکم شرع کیا ہے ؟ برائے مہربانی جواب سے نوازیں۔بينوا و توجروا }}92۔786بعون المجیب الوھاب ھوالھادی الی الصواب والیہ المرجع والماب
مرزا غلام احمد قادیانی اور اسکے متبعین خواہ لاہوری ہوں یا قادیانی ۔ اپنے عقائد کفریہ ہمیشہ، بدعیہ باطلہ کی وجہ سے جمہور علماء اسلام کے نزدیک کافر و مرتد اور جہنمی ہیں (تفصیلی معلومات کے لئے فقیر غفرلہ کا رسالہ قادیانی دھرم اردو اور ڈچ زبانوں میں مطالعہ کریں)
شفاء شریف، فناوی بزازیہ، اور فتاوی خیریہ وغیر ہا میں ہے: اجمع الْمُسْلِمِينَ أَنَّ شَائِمَه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَافِرُ وَ مَنْ شَكٍّ فِي عَذَابِهِ وَكُفْرِهِ فَقَدْ كَفَر اور کہ تمام اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو بھی شانِ رسالت ( على صاحبها الصلوة والسلام) میں توہین و تنقیص کرے وہ ایسا کا فر ہے کہ جو بھی اس کے عذاب وکفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
پس جو شخص مرزائی و قادیانی کے عقائد باطلہ پر مطلع ہو کر اسے کا فرو جہمی جاننے میں ذرہ برابر شک کرنے یا عند السوال انہیں کا فرد جہنمی کہنے میں تامل سوچ بچار کرے وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج اور مرزائی و قادیانی کا ہی ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے۔کما فی فتاوی الحرمين سماها حسام الحرمين والصوارم الهنديه وفي فتاوى العلماء العالم وغيرها . واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ عبد الواجد قادری غفر لہ خادم الافتاء جامعہ مدینۃ الاسلام دی ہیگ ہالینڈ
11 جمادی الاولی 1414ھ
فتاوی یورپ ،ص:72،73،شبیر برادرز لاہور