logoختم نبوت

کیا مرتد توبہ کے بعد وارث بن سکتا ہے؟ (مفتی محمد نظام الدین ملتانی رحمۃ اللہ علیہ)

استفتاء:

مرتد شخص ورثہ مسلمان بھائی کا یا والدین کا ورثہ پاسکتا ہے یا نہیں ۔ اگر وہ تو بہ کرے تو پھر کیا حکم ہے ؟

السائل مبارک شاہ سلانوالی ڈاکخانہ بکھر

الجواب :

مرتد شخص کو ہر گز ورثہ مسلمان بھائی و والدین کا نہیں پاسکتا۔ چنانچہ کتب ذیل میں درج ہے المرتد لا يرث من مسلم ولا من مرتد مثله كذا فى المحيط و فتاویٰ عالمگیر جلد ۲ صفحہ ۴۵۸ اور خزانته المفتین میں ہے. المرتد لا يرث من احد لا من المسلم ولا من الذقى ولا من الذمی ولا من مرتد مثلہ اور در مختار صفحہ ۲۸۲ میں ہے :موانعة الرق والقتل واختلاف الدين اسلاما کفر اپنے وارث کے مانع غلام ہونا اور مورث کو قتل کرنا اور دونوں میں کفر و اسلام کا اختلاف ہونا ۔

اور فتاولے جامع الفوائد میں ہے :ومن انكر شرائع الاسلام فقد ابطل قوله لا الله إلا الله هكذا فی فتاوی غرائب اگر مرتد ان کی زندگانی میں توبہ کرلے تو توبہ اسکی صحیح مذہب اہلسنت و جماعت میں قبول ہو گی پھر اسکو ور ثہ مل سکتا ہے۔ چنانچہ تزویر الابصار مطبع ہاشمی صفحہ ۳۱۹ میں مذکور ہے :كل مسلم مرتد فتوبة مقبولة الا الكافر يسب بنى او الشيخين او احدهما اور ایسا ہی فتاوی خیریہ مطبوعہ مصر جلد اول صفحہ ۹۴ ،۹۵ اور البصائر صفحہ ۱۸۶ میں لکھا ہے: کل كا فرتاب فتوبة مقبولة فى الدنيا والآخرة الخ یعنی ہر ایک مرتد کی توبہ قبول ہو جاتی ہے۔ لیکن جو سب شیخین یا کسی نبی کی شان میں گستاخی کرے اسکی توبہ قبول نہیں ہوتی اور ایسا ہی در مختار صفحہ ۳۲ میں ہے اور فتادی غرائب میں ہے : یو مر بالتوبة والرجوع عن ذلك وتجديد النكاح مع امرأته پس ان دلائل سے ثابت ہوا کہ مرتد شخص اپنے مسلمان بھائی کا ورثہ نہیں پاسکتا ہاں اگر تو بہ تجدید اسلام و تجدید نکاح ان کی زندگانی میں کرے تو پھر اسکو ورثہ پہنچ سکتا ہے ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

المجيب خادم شریعت نظام الدین ۱۵ جون 1920ء

جامع الفتاوی ،ص:416،سنی دار الاشاعت علویہ رضویہ ڈجکوٹ روڈ لائلپور ،مغربی پاکستان

Netsol OnlinePowered by