وہابی و مرزائی و شیعہ و چکڑالوی کا وعظ سننا جائز ہے یا نہیں ۔ قرآن مجید و احادیث شریف و آثار صحابہ سے جواب دو۔
بیشک فرقہ وہا بیہ و شیعہ وچکڑا لوی و نیچری و غیره مذاہب باطلہ کا وعظ سننا اور ان کو مسند اہل اللہ پر بٹھانا نزدیک مذہب حقہ یعنی اہلسنت و جماعت کے جائز نہیں اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہدایت کرنا اسی شخص کا کام ہوتا ہے جو خود راہ ہدایت پر ہو اور حدیث کا مصداق ہو نہ ہوں وہ شخص کی گڑھے گمراہی و ضلالت میں مستغرق ہو کر سرگرداں و پریشان حال رہتا ہو اور قرآن مجید و احادیث شریف کو اثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہو چکا ہے کہ ظالموں اور فاسقوں اور اہل بدعت واہل ہوا کے ساتھ مجالست و موانست و مواکلت و مشاربت کرنا منع ہے۔ وھو ہذا : لا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمین اور اسکی تفسیر تفسیر احمدی میں اسطرح مذکور ہے: إِن القَومَ الظَّلِمِينَ هُمُ الْمُبْتَدِع وَالْفَاسِقُ وَالْكَافِرُ وَالْقَعُودُ مَعَ كلهم یعنی ظالم لوگ بد ندیب و فاسق و کافر ہیں ان سب کے ساتھ بیٹھنا منع ہے۔ اور دوسری جگہ یوں ارشاد ہوتا ہے : ولا ترکنوا الی الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّار ظالم لوگوں کی طرف میں میل مت کرو کہ تم کو ان کے سبب سے دوزخ کی آگ چھوئے۔
اور علاوہ اسکے قرآن مجید کا یہ بھی حکم ہے کہ اگر تمہارے پاس فاسق خبریں لے کر آئیں تو ان پر اعتماد نہ کرنا تا وقتیکہ اسکو اچھی طرح جانچ نہ ہو ۔ وہو ہذا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاءِ فَتَبَینوایعنی اسے ایما ندارو اگر تمہارے پاس فاسق خبر لائے تو اسکو تحقیق کر و یعنی فاسق کے کہنے پر اعتماد نہ کرو تا وقتیکہ اسکی پڑتال نہ کر لو فتفرقوا وتفصحوا نقل از خازن کبیر اور طبرانی و غنیتہ الطالبین صفحہ ۱۷۹ میں معاذ بن جبل و حضرت انس رضی اللہ عنہما سے بایں طور منقول ہے:وَأَنَّهُ يَجي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْم يَنْقُصُونَهُمُ الْآ تجالِسُوهُمْ وَلَا تُشَارِ بُوهُمْ وَلَا تَوَاكِلوهُمْ ولا تنا کحوهُمْ وَلَا تَصَلَّوْا عَلَيْهِمْ مَعَهُمْ (ترجمہ ) یعنی فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ فرقہ ہوائیہ مبتدع کے ساتھ نہ بیٹھو اور نہ ان کے ساتھ پیو اور نہ ان کے ساتھ کھاؤ اور نہ ان کے ساتھ رشتہ بندی کرو. اور نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو اور نہ ان کے جنازے کی نماز پڑھو۔
اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب تم بدمذہب کو دیکھو تو اس سے ترشروئی کے ساتھ دیکھو اور حضرت انس
سے نیز مذ کو رہے۔ فرمایا آپ نے رُبِّ عَابِدِجَاهِلَ عَالِمٌ فاجر فَاحْذَرُوا یعنی بہت عابد جاہل ہو جائیں گے اور بہت عام تباہ کار اور تم جاہل عابدوں اور تباہ کار عالموں سے بچو۔ اور ابن عباس
سے مروی ہے کہ جو شخص کہ قابل اس امر کے نہ ہو تو اسکو اس امر پر مقرر نہ کیا جاوے اور کسی شخص نے ایسا کر بھی دیا تو اسنے اللہ تعالٰے اور اسکے رسول ﷺاور مسلمانوں کی خیانت کی اور ایک روایت میں نیز اس طرح مذکور ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر
کے پاس ایک شخص نے اگر کہا کہ یا حضرت فلاں شخص نے آپ کو سلام کہا ہے تو فرمایا آپ نے تجھے معلوم ہے کہ اس نے کوئی بد مذہبی کا طریق ایجاد کیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسکو میرا سلام نہ کہنا اور حضرت امام احمد بن حنبل
فرماتے ہیں کہ بد مذہب کو سلام کہنا گو یا اسکو دوست بنانا ہے۔ وہو ہذا - عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا انْ مُجَاءَ رَجُل فَقَالَ أَنَّ فُلَانًا يَقْرَءُ عَلَيْكَ السَّلَامُ فَقَالَ بَلْغي إِنَّهُ قد أَحْدَثَ فَإِنْ كَانَ قد أَحْدَثَ فَلَا نَقْرَاءُ عَلَيْهِ السَّلَامُ وامامنا إِمَام أَحْمَدُ ابْنِ حَنْبَل قَالَ مَنْ سَلَّمَ عَلَى صَاحِبِ بِدُ عَةٍ فَقَدْ حبہ اور ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک دن ایک بد مذ ہب نے امام ابن سیرین
کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ابو بکر آپ کی خدمت میں ایک حدیث بیان کرنی چاہتے ہیں۔ فرمایا نہ اور انہوں نے کہا کہ ایک آیت قرآن مجید کی تو فرمایا تم چلے جاؤ یا میں خود چلا جاؤں گا۔ اور آخر وہ دونوں چلے گئے ۔ اور بعد میں ان سے کسی نے کہا کہ یا حضرت اگر وہ کوئی آیت قرآن مجید کی آپ کے آگے پڑھتے تو کیا حرج تھا۔ فرمایا کہ میں ڈرا کہ وہ آیت پڑھ کر کچھ معنے میں تحریف کرتے اور میرے جی میں جگہ کرتی ۔
اور حضرت حسن بصری
و محمد بن سیرین
نے کہا کہ بد مذہبوں ہوں کے ساتھ نہ بیٹھو ۔
اور سلف صالحین کا یہ طریق تھا کہ جب کسی بد مذہب کو دیکھتے تو اس راستہ سے کنارہ کشی کر جاتے تھے کیونکہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ بد مذہبوں کے ساتھ نہ بیٹھو کہ بلا کھجلی کی طرح اڑکر لگتی ہے۔ اور امام غزالی
کتاب احیاء العلوم باب منکرات مساجد میں تحریر کرتے ہیں: فالُوا عِظُ الْمُبْتَدِع يَجِبُ مَنْعُهُ وَلَا يَجُوزُ حَضُورٌ مَجْلِسِہ الا على قصد ا ظُهَارِ الرد عليه یعنی مبتدع واعظ کا رو کنا واجب ہے۔ اور اسکے وعظ میں جانانا جائز ہے مگر جبکہ اسکے روکنے کا قصد ہو۔ اور علامہ طحاوی
نے لکھا ہے:اما الفَاسِقِ الْعَالِمُ فَلَا يُقَدِّم لِأَنَّ فِي تَقْدِيمِهِ تَعْظِيمُهُ وَقَدْ تَجَبَ عَلَيْهِمُ اهَانَ شَرعًا یعنی اگر فاسق عالم سب سے زیادہ صاحب علم تو اسکو امام بنانا جائز نہیں کیونکہ اسکو آگے کرنا اسکی تعظیم لازم آتی ہے حالانکہ اسکی اہانت کرنا شرعا واجب ہے اور ایسا ہی صاحب حلبی نے شرح منیہ میں لکھا : الْمُبْتَدِعُ فَاسِقٌ مِنْ حَيْثُ الْاعْتَقَادِ وَهُوَ اشَدُّ مِنَ الْفِسْقِ مِنْ حَيْثُ العَمَلِ يعنی بد مذہب عقیدہ کا فاسق ہے اور وہ عمل کے فسق سے بدتر ہے۔ اور کتاب مسلم بروایت ابو ہریرہ سے اسطرح مذکور ہے:يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دجَالُونَ كَذَّ الوْنَ يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنتُمْ وَأَبَاءكُمْ وایاھم لا یضلونکم ولا یفتنونکم (ترجمہ ) یعنی فرمایا نبی علیہ الصلوة والسلام نے کہ آخر زمانہ میں فریبی اور مکار اور جھوٹے لوگ آئیں گے اور لائیں گے تمہارے پاس ایسی حدیثیں کہ نہ سنی ہونگی تم نے اور نہ تمہارے باپ دادوں نے اور تم اپنے آپکو ان سے بچاؤ اور ان کو اپنے سے ایسا نہ ہو کہ تمکو کہیں گمراہ نہ کر دیں۔ اور فتنہ فسادمیں نہ ڈالدیں ۔
اور ایک روایت بخاری و مسلم میں اسطرح سے منقول ہے کہ آخر زمانہ میں ایک قوم کم سن کم عقل اور سواحدیث و قرآن ان کی گفتگو نہ ہوگی اور قرآن پڑھے گی لیکن ان کے گلے سے قرآن نیچے نہ اترییگا کہ یعنی دین سے خارج ہونگے۔ جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے ۔
اور اس حدیث کے اخیر الفاظ یہ ہیں : يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قُولِ الْبَرِيَّةِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا یجاور حنَا جَرَهُمْ يُمرِقُونَ مِنَ الَّذِينَ كَمَرُ وقِ السھم من الرمية الحديث متفق عليه
اور صاحب ترمذی نے لکھا ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ السنتھم أحلى مِنَ السَّكَرِو قُلُوبِ الذياب یعنی فرمایا نبی علیہ الصلوة والسلام نے کہ ان کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہونگی اور دل ان کے بھیڑیوں سے زیادہ سخت ہونگے ۔
اور شاہ عبد العزیز
صاحب اپنی تفسیر ذیل اس آیت کریمہ و ذر لو تد ھن فید ھنون کے لکھا ہے کہ ایماندار آدمی کو ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھناد غیرہ نہ چاہیئے وھو ہذا : فَإِنَّهُ لَا يُوَانِسُ الْمُبْتَدِع فَلَا يُجَالِسُهُ وَلَا یواکلہ ولا یشاربہ مطلب یہ ہے کہ ایماندار کو جائز نہیں کہ وہ بد مذہب کے ساتھ محبت کرے یا اسکے ساتھ بیٹھے یا اسکے ساتھ کھائے یا ہیئے۔ اگر ایسا کرے گا تو اس کے ایمان میں نقصان پہنچے گا۔
پس ان تمام دلائل قاطع ہے یہ ثابت ہوا کہ اہل سنت و جماعت کو ہر گز ہرگز نہیں چاہیئے کہ فرقہ ہوائیہ مثل شیعہ وھابی ومرزائی و چکڑ الوی و نیچری وغیرہ کو اپنے مسند اہل اللہ پر جگہ دیں اور ان کا وعظ سنیں اور ان کی بات پر اعتماد کریں وبقول شخصے۔
تعجب ہے کہ ہنر مندان بمیرند و بے ہنراں جائے ایشاں گیرند: شعر
کسی نیاید بزیر سایہ بوم
در ہما از جہاں شود معدوم
لہندا برادران اہلسنت و جماعت کو چاہئیے کہ فرقہ عدو اللہ کو مسند اہل اللہ پر ہرگز نہ بیٹھنے دیں ورنہ نتیجہ اسکا اچھا نہ ہوگا۔
منشین با بداں کہ صحبت بد
گرچہ پاکی ترا پلید کند
باقی ذکر مفصل اسکا طرد المبتدعين عن مجالس المسلمین اور قہر کبرائی برقلعہ شنائی میں جو فقیر کی تصنیف میں سے ہے ملاحظہ کریں: والله يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ۔
جامع الفتاوی ،ص:404تا407،سنی دار الاشاعت علویہ رضویہ ڈجکوٹ روڈ لائلپور ،مغربی پاکستان