مرزا غلام احمد قادیانی کو اگر مجدد زمان مانا جائے تو بجا ہے یا نہیں ؟
مرزا صاحب مذکور ہرگز مجدد زمان نہیں مانا جا سکتا۔ کیونکہ مجدد کے لئے چند شرایط مقرر اور متعین ہیں۔ چنانچہ کتاب مجالس الا برابر مجلس ۸۳ میں بایں طور مسطور ہے کہ مجدد وہ ہو سکتا ہے جسکی لیاقت علمیت و بزرگی کو علمائے وقت تسلیم کر لیں ۔ نہ یہ کہ وہ اپنی زبان سے میاں مٹھو طوطا کی طرح مجدد ہونے کا اپنے منہ سے دعوی کرے۔ اور کہلاتے ۔ اور مرزا صاحب میں یہ صفت کہاں۔ دیکھو اسکی عبارت غربی جو یہاں بطور نمونہ مشتے از خروارے تحریر کر دی جاتی ہے جسپر ادنی لیاقت والے طالب علم بھی اعتراض کرتے ہیں ۔ اور ہنسی اڑاتے ہیں۔ اور مرزا صاحب کی چند تصانیف سے کتاب اعجاز المسیح کی چند غلطیاں پیر مہر علی شاہ صاحب نے سیف چشتیائی اور صاحب فیصلہ آسمانی میں بایں طور نقل کر دی ہیں ۔ وہو ہذا وَإِنِّي(ح) سَمَّيْتَهُ اعْجَازُ الْمَسِيمِ وَقَدْ طُبِعَ فِي مَطْبَعِ صِيَاءُ الْإِسْلَامِ فِي سَبْعِينَ يوما من شهر الصيام وكان من الهجر سنبه ۱۳۱۸ من شهر النصاری ۲۰ فروری سنمه ۱۹۰۱ء مقام الطبع قادیان ضلع گورداسپور
حاشیہ
(ح)(طبع کی ضمیر راجع طرف قصیدہ کے ہے اور قصیدہ مونث ہے لہذا طبعت ہونا چاہیئے تھا۔ اور قد طبع في سبعین یوما کی بجائے صنعت کا لفظ زائد ہونا چاہیے تھا تا کہ معنی صحیح ہو جاتے ۔( خادم شریعت )
حاشیہ ختم شد
اب ناظرین ستر دن کا بھی ہوتا ہے اور امید ہے کہ مرزائی صاحبان اس جگہ بھی کچھ تاویل کریں گے حالانکہ یہ تمام عبارت بے ربط اور خلاف محاورہ عرب کے ہے۔
غلطی دوم - ضلع گورداسپور کی بجائے غور د اسفور ہونا چاہیے تھا۔
غلطی سوم - باهتمام الحکیم فضل الدين بعد التعريب فضل الدین
غلطی پنجم - صفحہ ۳: کل امر ہم علی التقوی۔ اس مقام پر کل امر لھم ہونا چاہیے تھا چونکہ کل مجموعی خلاف ہے۔
غلطی ششم صفحہ ۴ :فلا ایمان لہ او مضیح ایمانته، دو دفعہ ایمان کے لفظ کا تکرار بیقاعدہ اور خلاف محاورہ عرب ہے۔
غرضیکہ مرزا صاحب نے کہیں تو مقامات حریری وغیرہ کتب سے عبارتیں چراتی ہیں اور کہیں لفظی اور کہیں معنوی تحریف قرآن مجید و احادیث شریف کی گئی ہے جس کو پیر صاحب موصوف نے اپنی تصنیف سیف چشتیائی میں صفحہ ۷ تا ۱۸ قلمبند کر دیا ہے اور انشاء اللہ تعالی فقیر بھی ہر ایک جلد میں چند اغلاط مرزا غلام احمد قادیانی کے لکھتا رہے گا۔
اور دوسری شرط مجدد کی یہ ہے کہ وہ اپنے ظاہر و باطن کو مطابق شریعت جناب محمد رسول ﷺکے رکھتا ہے۔ اور اقوال و افعال اس کے ہرگز برخلاف شریعت کے نہیں ہوتے۔ اور مرزا صاحب میں یہ ہر دو صفت موجود نہ تھیں نہ تو مرزا صاحب نے باوجود استطاعت وفارغ البالی و مرفه الحالی حج کیا۔ اور نا ہی پتلی روٹی گیہوں کی کھانے سے تین دن متواتر باز رہے ۔ اور نا ہی فرش چمڑے اور کھجوروں کے پتوں سے بنایا۔ اور نا ہی مرزا صاحب نے کباب اور زردی اور پلاؤ کھانے سے منہ پھیرا۔ اور نہ ہی جھوٹے الہام بیان کرنے سے زبان کو روکا۔ اور نا ہی نبیوں کی توہین کرنے سے قلم کو بند کیا۔ اور نا ہی ۲۲ کروڑ مسلمانوں کی پارٹی پر کفر کا فتوی لگانے سے شرمایا۔ اور نا ہی قرآن مجید اور احادیث شریف او راجماع امت کے اقوال کی تحریف معنوی کرنے سے قلم کو تھاما۔
تیسری شرط مجدد کی یہ ہے کہ جو بدعت اور بت پرستی اور برے کام لوگوں کے درمیان مروجہ اور قائم ہو چکے ہوں ان کو وہ اپنی ایمانی طاقت اور استقامت اور حوصلہ اور حلیمی سے دور کر دیتا ہے۔ مرزا صاحب نے تو بجائے ان باتوں کے بدعت اور بت پرستی کی بیخ قائم کی چنانچہ اپنی تصویر میں بنوا کر ملکوں میں تقسیم کیں حالانکہ یہ بالکل بر خلاف قرآن مجید و احادیث صحیحه و اجماع صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہے اے اور علاوہ اس کے اپنے آپ کو خدا کہلانا اور آسمان و زمین کے پیدا کرنے پر اپنے آپ کو قادر سمجھنا جیسا کہ کتاب البريۃ و حقيقۃ الوحی و دافع البلاء وغیرہ میں مذکور ہے۔ علاوہ اس کے خود مرزا صاحب کا دعوی کرشن جی کا بھی ہے ہے جس جس کی کی تعلیم شرک و بدعت سے بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ گیتا ترجمہ فیضی سے پوسٹ ماسٹر بخش
من از هرسه عالم جدا گشته ام
نبی گشته از خود خدا گشته ام
منم هرچه هستم خدا از من است
فنا از من است و بقا از من است
باشجار پیپل بدانی مرا
برگهائے نارو بدانی مرا
اگر گوش داری چنان میشوی
خدا میشوی و خدا می شوی
ہمہ شکل اعمال بگرفتہ اند
بہ تقلیب احوال دل گفتہ اند
گرفتار زندان آمد شداند
زبیدانشی خصم جان خداند
اب ناظرین ذرا مرزا صاحب کے کلمات بھی بغور و ہوش دیکھئے اور سنئے اور انصاف فرمائیے۔ وہو ہذا (ترجمہ) میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں۔ (من عینہ کتاب البريه مصنفہ مرزا صاحب صفحہ ۷۸ سطر ۴
اللہ تعالی میرے وجود میں داخل ہو گیا اور میرا غضب اور حلم اور تلخی اور شیرینی اور حرکت اور سکون سب اس کا ہو گیا اور اسی حالت میں میں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو میں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب و تفریق نہ تھی۔
پھر میں نجے نشاء حق کے موافق اس کی ترتیب و تفریق کی ۔ پھر میں نے منشاء حق کے موافق اس کی ترتیب و تفریق کی اور میں دیکھنا تھا کہ اس کے خلق پر قادر ہوں۔ پھر میں نے آسمان دنیا کو پیدا کیا۔ اور کہا انا زينا السماء الدنيا بمصابیح پھر میں نے کہا اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے۔ پھر میری حالت کشف سے الہام کی طرف منتقل ہو گئی اور میری زبان پر جاری ہوا۔ اردت ان استخلف فخلقت ادم انا خلقنا الانسان فی احسن تقويم ( من عينه كتاب البريد صفحہ ۷۹ سطر س سے ۹ تک۔)
اور آگے چل کر اسی کتاب کے صفحہ ۱۹۲ میں جہاں یہ مضمون چھڑا ہوا ہے کہ امام مہدی اور عیسی مسیح میں ہوں۔ اور وہ حضرت عیسی
مرچکے ہیں اور جو لوگ ان کا زندہ ہونا آسمان پر مانتے ہیں وہ جاہل اور احمق اور نادان ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث کو غور سے نہیں سمجھتے اور جب ان کو پوچھا جائے کہ اس کے آسمان سے اترنے اور جانے کا کیا ثبوت ہے تو پھر نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث(ح)۔
حاشیہ
خادم شریعت نے بیس حدیثیں اور دس آیتیں حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات پر بوقت مناظرہ جھوک بوسن علاقہ ملتان میں مناظرہ قادیانی کے پیش کیں اور اس کو لاجواب کیا اور اس علاقہ سے اس کا تخم اڑا دیا ۔اور جدید طبع رسالہ قہر یزدانی بر قلعہ قادیانی کو ملاحظہ کریں جو خادم شریعت کا بنا ہوا ہے ۔(خادم شریعت )
حاشیہ ختم شد
پناہ بخدا۔ میرے صاحبان دیکھو! مرزا صاحب کا کس قدر جھوٹ بولنا ثابت ہے پیر مہر علی شاہ صاحب فاضل اجل لاہور میں خود بحث کرنے کے لئے مع بسیار علمائے دین کے تشریف لائے اور مرزا صاحب بھاگ گئے اور ایسا ہی پیر جماعت علی شاہ صاحب علی پوری کے مقابلہ کرنے سے بھاگتے رہے۔ آخر الامر اس کے دعوی کی تردید میں کتاب سیف چشتیائی و شمس الہدایتہ تیار کیں۔ اس طرح ہزار ہا علمائے دین جو اب بدلائل قاطعہ اب تک دے رہے ہیں اور خاص کر اب بھی رفیق پیر بخش صاحب پنشر: پوسٹ ماسٹر انجمن تائید الاسلام کی طرف سے مستقل طور پر رسالہ ماہواری نکلتا ہے جس کے جواب دینے میں مرزا صاحب اور مرزا کے پیرولا نسلم کا سبق پڑھ کر لاجواب ہو گئے اور انشاء اللہ ہوتے رہیں گے۔
گر نہ بیند بروز شب پره چشم
چشمہ آفتاب گناه را چہ
اور اب فقیر بھی مرزا صاحب کے گدی نشینوں اور متعیین کو نوٹس دیتا ہے کہ اگر مرزا صاحب اور آپ لوگ بچے ہیں تو ہیں ہزار روپیہ جو مرزا صاحب نے کتاب البریہ صفحہ ۱۹۲ میں بطور انعام اس دعوی پر ارقام فرمایا ہے براہ مہربانی بصیغہ منی آرڈر روانہ فرمایا جائے ورنہ سرکاری طور پر درخواست کی جائے گی۔
و ہو ہذا
اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو۔ تو صحیح تو کیا کوئی وضعی حدیث بھی ایسی نہ پاؤ گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسی
جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں گے۔ اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو ہیں ہزار روپے تک تاوان دے سکتے ہیں۔ اور توبہ کرنا اور تمام اپنی کتابوں کو جلا دینا اس کے علاوہ ہو گا جس طرح چاہیں تسلی کر لیں" من عینہ۔اور صفحہ ۱۹۳ میں یوں لکھا ہے کہ ”جہاں کسی کا واپس آنا بیان کیا جاتا ہے عرب کے فصیح لوگ رجوع بولا کرتے ہیں نہ نزول من عینہ۔
اب ناظرین نے مرزا صاحب کی عبارت نزول کا لفظ وارد ہے وہ غیر فصیح ہے۔ یہ لفظ ذی عزت آدمی کی خاطر بھی بولا جاتا ہے اور یہ عام محاورہ ہے۔ نزول من السماء اور رجوع کا کلمہ کسی حدیث وضعی کتاب مذہب اسلامیہ میں بھی اس کا ثبوت نہیں۔ اور اگر کوئی شخص دیکھا دے تو اس کو میں ہزار روپیہ علاوہ مزا اور تاوان کے دوں گا۔
میرے صاحب ذرہ انصاف سے حدیثوں کو ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کیا ان میں رجوع اور نزول من السماء کا کلمہ ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو مرزائی صاحبان تحریر شده تاوان لے دیں۔ اگر وہ نہ دیں تو سمجھ لیں کہ یہ لوگ کذاب ہیں اور نا ہی مرزا صاحب صادق اور مجدد ہو سکتے ہیں۔ اور وہ دلائل یہ ہیں۔
حدیث نمبرا : قال الحسن قال رسول الله ﷺ لليهود ان عيسى لم يمت وانه راجع اليكم قبل يوم القيامة نقل از تغیر در منثور و سیف صفحه ۲۵) یعنی کہا حضرت حسن بصری
نے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے واسطے مخاصمین اہل یہود کے حضرت عیسی
اب تک نہیں ملا۔ وہ تمہاری طرف واپس آنے والا ہے قیامت سے پہلے اس حدیث میں رجوع کا لفظ موجود ہے اور حدیث صحیح ہے)۔
حدیث نمبر ۲ : روی اسحق بشر و ابن عساكر عن ابن عباس قال قال رسول الله ﷺفعند ذلک ینزل اخی عیسی بن مریم من السماء (نقل ازکنز العمال) یعنی کہا حضرت ابن عباس
نے کہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے نزدیک ہے کہ میرا بھائی عیسی بن مریم آسمان سے نزول فرمائے گاہ (اس حدیث میں کلمہ من السماء کا موجود ہے)۔
حدیث نمبر ۳ : فانه لم يمت الى الان بل رفعه الله الى هذا السماء روى ابن جرير و ابن حاتم عن ربيع قال ان النصارى اتوا النبي صلى الله عليه وسلم الى ان قال الستم تعلمون ربنا حيى لا يموت وان عيسى ياتی علیه الفناء نقل از سیف (۱۳۴) یعنی کیا تم لوگوں کو علم نہیں رب ہمارا زندہ ہے۔ اس پر کبھی موت نہیں آئے گی اور عیسی پر موت آئے گی۔
حدیث نمبر ۴ : عن عبدالله بن سلام قال يدفن عيسى بن مريم مع رسول الله ﷺو صاحبيه فيكون قبره رابعا یعنی فرمایا کہ دفن ہو گا عیسی بن مریم ساتھ حضور علیہ الصلوة والسلام کے اور ابوبکر اور عمران بالا کے اور اس کی قبر چوتھی ہو گی۔
حدیث نمبر ۵ : عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف انتم اذا انزل ابن مريم من السماء فيكم وامامكم منكهم ( رواه البيهقي في كتاب الاسماء والصفات فانهم) ناظرین کیا حدیث نمبر اول میں رجوع اور حدیث نمبر ۲ اور حدیث نمبر ہ میں کلسفہ من السماء کا واقعہ ہے یا نہیں؟
اب مہربانی فرما کر مرزائی صاحبان کو لازم ہے کہ ایفائے وعدہ کریں یا مرزا صاحب کے اتباع سے توبہ کریں اور علاوہ اس کے مرزا صاحب کے اور بھی کلمات ہیں۔ اصل کو غور سے دیکھیں اور انصاف کریں کہ کیا یہ مطابق قرآن مجید و احادیث شریف و اجماع مسلمین و آئمه دین و مجتدین و مجدد دین کے ہیں یا نہیں؟ وہو ہذا انت منی بمنزلة اولادى انت منى وانا منکر نقل از کتاب دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء صفحه (1) انت منی بمنزلة الولدى ( حقيقته الوحی صفحہ (۸۶) اور معنی ان کے یوں کئے جاتے ہیں کہ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ اولاد تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔
ناظرین کیا یہ مرزا صاحب کا کہنا بچ ہے؟ ہر گز نہیں۔ یہ صریح چھوٹ ہے اور خداوند کریم پر افتراء باندھا ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف خود اس کی تردید کرتا ہے۔
(آیت اول) لم یلد و لم یولد یعنی نہیں جنا اس نے کسی کو اور نہ وہ جنا گیا۔
(آيت روم) لم يتخذ ولدا ولم يكن له شريك فى الملک اس نے کس کو ولد (بیٹا یا بیٹی) نہیں بنایا اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے۔
(آيت سوم) ومن اظلم ممن افترى على الله كذباً الذين كذبوا على ربهم الا لعنة الله على الظلمين
(آیت چهارم) فويل للذين يكتبون الكتاب بايديهم ثم يقولون هذا من عند الله ليشتروا به ثمنا قليلا
پس ان تمام مذکورہ بالا آیات بینات سے واضح ہوا کہ جو شخص اللہ پر افترا باندھے یعنی خدا کا بیٹا ہونے کا دعوی کرے یا خود خدا بنے۔ یا اپنے ہاتھ سے کوئی کتاب لکھ کر کہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو میری منہ سے نکلتا ہے۔ سو وہ ظالم اور لعنتی اور دوزخی ہے۔
اور دیکھو مرزا صاحب نے جو اشتہار بہ نسبت موت لیکھرام ۱۵ مارچ سنہ ۱۸۵۷ء صفحه ۳ کالم ۲ سطر ۳۳ ۳۴ میں دیا تھا لکھا ہے۔ قرآن خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں اور اس کتاب کے صفحہ ۳۰۳ میں لکھا ہے کہ مسیح
یوسف نجار (یعنی یوسف ترکھان کا بیٹا) ہے۔ اور اسی کتاب کے صفحہ ۶۲۹٬۶۳۸ میں لکھا ہے کہ انبیاء
جھوٹے ہوتے ہیں۔ خدا کی پناہ ایسے مجددوں سے۔
میرے صاحبان! انصاف فرمائیے کہ جس آدمی کے یہ الفاظ ہوں کیا وہ آدمی بقانون شریعت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان بھی رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں، ہاں بقول شخصے سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی" الغرض مرزا صاحب کسی صورت میں مجدد نہیں ہو سکتے اور باقی ذکر جلد چہارم میں ملاحظہ کریں۔واللہ اعلم بالصواب
سطلان الفقہ المعروف فتاوی نظامیہ ،ص:252تا260،اشاعۃ القرآن پبلی کیشنز اردو بازار لاہور جامع الفتاوی ،ص:320تا325،سنی دار الاشاعت علویہ رضویہ ڈجکوٹ روڈ لائلپور ،مغربی پاکستان