logoختم نبوت

کیا قادیانی سنی ہے؟ - (مفتی عبد الماجد قادری)

استفتاء:

حاجی محمد ابراہیم عبدل صد رفیض الاسلام، دی ہیگ

کیا فرماتے ہیں علمائے ربانی و مفتیانِ حقانی اس بارے میں کہ موجودہ زمانہ میں سنی سے کیا مراد ہے ؟ اور سنی کی صحیح تعریف کیا ہے ؟ کیونکہ مختلف فرقے اپنی اپنی سنیت کے دعویدار ہیں عوام کو یہ باور کرانا مشکل ہے کہ اصل سنی کون ہے لہذا تفصیلی جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں تا کہ آپ کے جواب کو ہم مختلف زبانوں میں شائع کر سکیں ۔

الجواب:

الجواب هو المجيب الوهاب:

لفظ سنی اہلسنت و جماعت کا مخفف ہے جب مذہب کے تعلق سے یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد اہلسنت و جماعت ہی ہوتا ہے۔ اور اہلسنت و جماعت اسے کہتے ہیں جو مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابی کا مصداق ہو۔ زمان و مکان اور حالات کے اختلاف سے سنی کی تعریف مختلف ہوتی رہی ہے چنانچہ جب سبائیوں نے شیعہ فرقہ کوجنم دیا تو شیعہ مدعی اسلام ہونے کے باوجود اسلام کے فرائض و ارکان میں اختلافات کرنے لگے۔ ان کے بعض معتقدات و نظریات بھی یکسر بدل گئے۔ حضرت سید نا شیر خدا مولی علی کرم اللہ وجہ الکریم کو حضرات شیخین نے سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر فضیلت دینے لگے ۔ بلکہ ان حضرات کی شان اقدس میں تیرا بازی کرنے پر اتر آئے، تو اس زمانہ خیر القرون سے ملحق خیر از منہ میں سنیوں کے لئے صرف مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي ہی کا مصداق ہونا کافی نہ ہوا۔ بلکہ ائمہ و مجتهدین خصوصا امام الائمہ کاشف الغمة سید نا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تبارک و تعالیٰ عنہم نے ما أنا عليه وَأَصْحَابِی کے ساتھ تَفَضَّلُ الشَّيْخَيْنِ عَلَى الْخَتَنَيْنِ یعنی سیدنا ابو بکر صدیق اور سید نا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت سیدنا عثمان غنی اور حضرت سید نا مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے افضل و برتر ماننا بھی اہلسنت و جماعت کی پہچان اور شعار قرار دیا .....

شیعوں کے بعد نئے فرقے جنم لیتے رہے مثلاً رافضی ناصبی، خارجی زیدی اور معتزلی و غیر ہم تو ان کے نظریات و معتقدات سے سنیوں کو ممتاز کرنے کے لئے سنی کی تعریف میں بھی حسب ضرورت و امتیاز تبدیلی ہوتی رہی، آخر آخرالذکر فرقہ ( معتزلی) نے تو انتہا ہی کر دی کہ شاید باید ہی اشاعره و ماتریدیہ کا کوئی ایسا عقیدہ و نظریہ ہو جس سے اس نے اختلاف نہ کیا ہو۔ لیکن علما متکلمین نے انھیں ایسا سبق سکھایا کہ آج سطح زمین پر معترلی نام کا کوئی مدعی اسلام فرقہ موجود نہیں ہے ہاں اس کے بعض نظریات کو اب تک بعض فرق باطلہ پروان چڑھانے کی سعی لاحاصل کر رہے ہیں۔ مثلاً معتزلیوں کا یہ نظریہ تھا کہ زندوں کی دعائیں اور ان کی طرف سے صدقہ و خیرات مردوں کے لئے کچھ بھی نفع بخش نہیں تو ان کے مقابلے میں حضرات ائمہ و مجتہدین رضی اللہ تبارک و تعالیٰ عنہم نے ایصال ثواب کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اسے سنیوں کا طریقہ و شعر بتایا۔ امام اعظم سیدنا امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشہور و معروف کتاب فقہ اکبر کی شرح عقائد میں ہے:

إِنَّ دُعَاءَ الْأَحْيَاءِ لِلأَمْوَاتِ وَ صَدَقَتْهُمْ عَنْهُمْ نَفَعُ لَهُمُ لانا لِلْمُعْتَزِلَةِ وَالْأَصْلُ فِي ذلِكَ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ إِنَّ الإِنسَانَ أَنْ يَجْعَلُ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً أَوْصَوْمًا أَوْ حَبًّا أَوْ صَدَقَةً أَوْ غَيْرَهَا وَعِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ يَجُوزُ ذَلِكَ ثَوَابَه إِلى الميۃ زندوں کی دعائیں اور ان کی طرف سے صدقہ وخیرات مردوں کے لئے نفع بخش ہیں۔ اس امر میں معتزلہ خلاف ہیں اور اہلسنت کے نزدیک مثلا نماز، روزه، حج و صدقات و غیر ہا کا ثواب در اصل بات یہ ہے کہ انسانوں کے اعمال صالحہ دوسرے اہل ایمان کو پہنچانا مشروع ہے امام الائمہ سید نا ابو حنیفہ اپنے اصحاب رضی اللہ عالی عنہم کے ساتھ ایصال ثواب کے جواز کے قائل ہیں۔ اھ

اسی طرح تیرہویں صدی ہجری کے اخیر میں اور چودھویں صدی ہجری کے شروع میں باطل فرقوں نے نئے نئے معتقدات کے ساتھ سر اٹھایا تو برصغیر کے علماء کے علاوہ حرمین محترمین اور حج کے مبارک موقع سے آئے ہوئے اکناف عالم کے اعاظم علماء کرام ومفتیان عظام کی تلواریں اُن کے حلقوم کا بارین گئیں ۔ اور اب سنی کی تعریف مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِی کا مصداق ہونا، تفضل شیخین کا معتقد ہونا یا ایصال ثواب کا قائل ہونا ہی نہ رہی، بلکہ ان سب باتوں کے ساتھ اس امر کا بھی اضافہ ہو گیا کہ ان باطل فرقوں کے اقوال کفر یہ خبیثہ پر اطلاع ہو جانے کے بعد انہیں کافر اور دین اسلام سے خارج جاننا، ان کے ساتھ اسلامی اخوت و مراعات کو یکسر ختم کر دینا -سنی ہونے کے لئے ضروری ہے۔ چنانچہ حُسامُ الحَرَمَيْنِ عَلَى مَنْحَرِ الكُفْرِ وَالْمَيْنِ کے ص 42 میں ہے۔

إِنَّ غُلَامٍ أَحَمَدَ الْقَادِيَانِي وَرَشِید أَحْمَد وَمَنْ تَبَعَةِ الخَلِيلِ الأَبيقي وَاشْرَفْعَلِي وَغَيْرُهُمْ لَا شَبُهَةَ في كُفْرِهِمُ بِلَا تَجَالٍ بَلْ لا شَبُهَةً فِي شَک بَلْ فِي مَنْ تَوَقَفَ فِي كُفْرِهِمْ بِحَالٍ مِّن الْأَحْوَالِ کہ غلام احمد قادیانی، رشید احمد گنگوہی ، اور جو بھی ان کے پیرو ہوں جیسے خلیل احمد انبیٹھوی اور اشرف علی تھانوی و غیر ہم ان کے کفر میں کوئی شک نہیں نہ شک کی مجال ۔ بلکہ جو ان کے احوال کو جان کر ان کے کفر میں شک کرے بلکہ انہیں کافر کہتے ہیں توقف کرے اس کے کفر میں شبہ نہیں ۔ اھ

اور اب ہمارے زمانے میں کچھ لوگوں نے تبلیغ دین کے نام بد عقیدگی کا پرچار شروع کیا ہے اور کچھ لوگوں نے اصلاح امت اور اتحاد ملت کے نام پر باطل فرقہ کے لیڈروں کو اتحاد کی دعوت دی ہے اور اس صلح کلیت پر گٹھ جوڑ کرنے چلے ہیں کہ اب ہم ایک دوسرے پر تکفیر و تفسیق کے فتوے نہیں لگائیں گے۔ نیز ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں گے وغیرہ وغیرہ۔

یہ فرقہائے متنوعہ جدیدہ جیسے جدید و ہا بیت الیاسیت، طاهریت یا صلح کلیت وغیر ہا کا نام دیا جا سکتا ہے مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک اور مہلک ایمان ہے ایسے لوگوں کے لئے قرآن پاک فرما چکا وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمُ فَانهُم مِنْهُم کہ تم میں سے جن لوگوں نے مخالفین کی طرف ہاتھ بڑھایا وہ انھیں میں سے ہیں۔

مذکورہ بالا مختصر وضاحت کی روشنی میں آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہوا کہ سنی مسلمان وہ ہے جو مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابی کا مصداق ہو۔ خلفاء را شدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی افضلیت کا حسب ترتیب خلافت معتقد و قائل ہو، صحابہ کرام کا ذکر بھلائی کے سوا نہ کرتا ہو۔ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کا مقلد ہو ۔ باطل مذاہب والوں اور بد عقیدوں کے ساتھ دینی راہ و رسم نہ رکھتا ہو۔ حسام الحرمین کی تشریحات کے مطابق گمراہ فرقوں کے لیڈروں کو کافر بہی اور دائرہ اسلام سے خارج جانتا ہو اور اپنے اسلاف کے مسلک کا پیروکار ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ

كتبہ عبد الواجد قادری غفرلہ 7 مئی ۱۹۹۳

خادم الافتاء جامعہ مدینتہ الاسلام ، دی ہیگ

فتاوی یورپ،ص؛63،66،شبیر برادرز اردو بازار لاہور

Netsol OnlinePowered by