logoختم نبوت

مرزا قادیانی کے معتقدات پر تفصیلی گفتگو - (مفتی محمد فضل کریم رضوی رحمۃ اللہ علیہ)

استفتاء:

مسئلہ:22بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم!

محترم و مکرم جناب مولا نا عبدالواجد صاحب قادری مفتی ادارہ شرعیہ بہار پٹہ ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ میرے سوالنامہ مورخہ ۸۰/۳/۸ ء کا جواب تاریخ ۸۰/۳/۲۵ء کو موصول ہوا۔ جواب کے لئے شکریہ۔ اس سوالنامہ کا جواب اب تک کئی اداروں سے آئے ہیں لیکن آپ کے مشفقانہ جواب کے لئے میں آپ کا بیحد شکر گزار ہوں۔ ویسے تو میرے سوالنامہ سے آپ کو پتہ چلا ہو گا کہ مجھے کسی فرقہ کسی ادارہ سے نفرت نہیں ہے اور میں سب کی عزت و احترام کرتا ہوں۔ اور سب سے درخواست کرتا ہوں ۔ مجھے کچھ کمی نہیں بھائیوں گزارش ہے غریبانہ ۔کوئی جو پاک دل ہوئے دل و جان اُس پر قرباں ہے۔ آپ کا جواب تو مجھے بہت ہی پسند آیا کیونکہ اس میں بہت مٹھاس محسوس کر رہا ہوں رہی یہ بات کو آپ نے جو جماعت احمد یہ اور مرزاغلام احمد قادیانی کے عقائد کو باطل قرار دیا ہے یہ تو آپ کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ آپ نے بہار شریعت وغیرہ سے پرانے جواب کو نقل کر دیا ہے خیر اب میں آپ کے جواب مورخہ ۸۰/۳/۲۵ء کے متعلق چند سطور لکھ رہا ہوں۔ غور کیجئے تو میرے سوال میں مندرجہ ذیل سوالیہ پہلو نظر آئیں گے۔

(1) مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کو اسلام کی ارکان خمسہ سے اتفاق رکھنا اور اس پر عامل ہونا۔

(۲) مرزا غلام صاحب کا مقصد اسلام کی ترقی ۔

(۳) حضور اکرم ﷺ کی اعلیٰ و ارفع شان کو دنیا والوں پر ثابت کرنا۔

(۴) مرزا صاحب اور شریعت اسلام ( انہوں نے شریعت اسلام کو منسوخ قرار دیا یا نہیں)

(۴) مرزا صاحب اور نئی شریعت ( انہوں نے کوئی نئی شریعت کی بنیاد رکھی یا نہیں؟)

(۵) امتی نبی اور ختم نبوت کا مسئلہ (یعنی جب ایک ہی شخص بیک وقت امتی اور نبی دونوں ہو جائے تو لفظ خاتم النبیین پر کیا اثر پڑے گا۔

(6) وفات حضرت عیسی sym-9 کا مسئلہ

(۷) مرزا صاحب کا مہدی ہونا یا نہ ہونا وغیرہ مندرجہ بالا آٹھ سوالیہ پہلو سے آپ نے کسی طرح صرف تین پہلو کا جواب دیا ہے آٹھویں پہلو کا جواب تو سات پہلوؤں کے جواب کے بعد خود بخود عیاں ہو جاتا ہے۔ آپ حضرت عیسی sym-9کی حیات ثابت کرنے کے لئے یہ آیت شریف پیش کیا ہے۔ وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لِيُؤْمِنُنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِه (پ ۶ سوره نساء ) ( یعنی کوئی اہل کتاب ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے ) آپ نے لکھا ہے کہ اس صراحت کے بعد اگر اس کے مد مقابل کوئی وفات عیسیsym-9 ثابت کرے تو اس کو سرکشی و طغیان نہیں تو اور کیا کہا جائے گا؟۔ اگر آیت مذکور کے ترجمہ کے اعتبار سے حضرت عیسیsym-9کو زندہ مان لیا جائے اور یہ بھی مان لیا جائے کہ جب حضرت عیسی sym-9 دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اس وقت کوئی بھی اہل کتاب یہود و نصاری سے دنیا میں نہیں رہے گا۔ سب کے سب مسلمان ہو جائیں گے اس کے بعد قیامت تک کوئی بھی یہودی یا عیسائی نہیں بچے گا۔ تو ایسی صورت میں قرآن شریف کی اس آیت کریمہ کا کیا معنی ہوں گے۔ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ ( سورہ مائدہ رکوع ) تو ہم نے اس کے آپس میں قیامت کے دن تک پیر اور بغض ڈال دیا (کنز الایمان ) اس آیت سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن تک اہل کتاب یعنی یہود و نصاری رہیں گے۔ اور ان کے آپس میں بغض و عداوت بھی رہے گی۔ اور آپ کے پیش کردہ وہ ترجمہ سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسیsym-9 کے نزول کے بعد اہل کتاب اسلام پر ایمان لے آنے کی وجہ سے اہل کتاب (یہود و نصاری) باقی نہیں رہ جائیں گے۔ اور اس طرح دونوں آیتوں میں ٹکراؤ پیدا ہو جاتا ہے حالانکہ کلام اللہ میں یہ تضاد ممکن نہیں ہے ۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسی sym-9 سے فرماتا ہے : إِذْقَالَ اللهُ تَعَالَى يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمَ القيمة یعنی یاد کرو جب اللہ نے فرمایا : اے عیسی ! میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کروں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت میں تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا۔ (پ ۳ رکوع ۱۴ ترجمہ شاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی ) اس آیت سے تو صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیsym-9کے متبعین (عیسائی) اور منکرین (یہودی) دونوں قیامت تک ضرور بالضرور دنیا میں موجود رہیں گے۔ اور متبعین منکرین پر قیامت تک غالب بھی رہیں گے۔ تو اب آپ ہی بتائیے کہ ان دونوں آیتوں کی روشنی میں آپ کا پیش کردہ ترجمہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے اور اسی سے حضرت عیسی sym-9کی حیات کیسے ثابت ہو سکتی ہے !

جماعت احمدیہ کے عقائد و معمولات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام ہی کی تبلیغ و اشاعت ان کا مقصد اول ہے جماعت احمدیہ کے یہاں مذہب کا لب لباب یہ ہے:لا الہ الا الله محمد رسول الله پر اعتقاد کامل، حضرت سیدنا و مولانامحمد مصطفے ﷺ خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں۔ جس کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا۔ اور وہ نعمت بمرتبہ تمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔ اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے۔ اور ایک شوشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود و احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی اور ایسا الہام منجاب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام قرآنی کی ترمیم یا تنیخ یا کسی ایک حکم کی تغیر یا تبدیل کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد و کافر ہے ( ہم مسلمان ہیں ص: ۱۵، بحوالہ ازالہ اوہام ص ۱۳۷)

بہار شریعت حصہ اول میں جو جماعت احمدیہ کے متعلق تردیدی باتیں لکھی گئی ہیں اور جو حوالے دیئے گئے ہیں جسے آپ نے اپنے جواب میں بھی نقل کیا ہے ان سے جماعت احمد یہ کے عقائد معلوم نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ بہار شریعت میں احمد یہ جماعت کے جو عقائد بتائے گئے ہیں وہ عقائد اس کے نہیں ہیں۔ قرآن شریف کے متعلق جماعت احمدیہ کے کیا عقائد ہیں وہ بھی ازالہ اوہام حصہ دوم ص ۵۲۴٬۵۲۳ سے صاف و واضح ہے۔ اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفے ﷺ اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں۔ اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے ۔ اور انسان جہل وغفلت اور شہبات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ الخ

جناب مفتی صاحب مضمون طویل ہوتا جا رہا ہے لہذا یہیں بس کرتے ہوئے دس بستہ گزارش ہے کہ تقلید سے خالی ہو کر دلائل کے ساتھ ہمارے قلوب کے شبہات کو مٹائیں اگر جواب نہیں دیں گے تو قیامت میں دامنگیر ہوں گا۔ اس خط کی ایک مکمل کاپی میرے پاس محفوظ ہے اور دوسری کاپی صدرا نجمن احمد یہ قادیان کو بھیجی جارہی ہے۔

المستفتي : غلام محمد انصاری، مقام دلیلی ، پوسٹ اور کھر گڑا ضلع پلاموں ، بہار

الجواب:

786/92

والسلام على من اتبع الهدی(سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی)چونکہ آپ نے اپنے متعلق اسلام و مرزائیت کے درمیان متردد و مشکوک ہونے کا اظہار کیا تھا اور دار الافتاء ادارہ شرعیہ بہار سے دستگیری کی اپیل کی تھی۔ اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجموعی جواب یہاں سے دیا گیا ۔جو آپ کے یہاں ۸۰/۳/۲۵ کو پہنچ گیا تھا۔ ممکن ہے آپ نے یہاں کے جواب کو بغور مطالعہ کیا ہو اور پھر اسی جواب سے اپنی کامل بے اطمینانی کا اظہار تفصیلی طور پر کر کے ۸۱/۹/۱۶ ء کو ادارہ میں بھیج دیا۔ جب میں ایک ماہ کی غیر حاضری ( بسلسلہ علالت )کے بعد دفتر پہنچا تو آپ کا معروضہ نظروں سے گزرا۔ آپ کی اصل تحریر کو آئندہ کے لئے محفوظ کرلیا گیا ہے کیونکہ اس کی نقل آپ کے پاس اور آپ کی مرکزی انجمن میں موجودہ ہے۔ معروضہ کا مختصر جواب حاضر ہے کہ شاید سبب ہدایت ہے۔ ایسے تجربات شاہد ہیں کہ کسی کی بیجا طرفداری جو جنون کی حد تک ہو۔ انسان کو جائز اور حق بات سے روک دیتی ہے۔ اور اس سے قبول حق کا جذبہ سلب کر لیا جاتا ہے۔ آپ کی لمبی چوڑی تحریر دیکھ کر میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ آپ مرزا قادیانی کی بے جا طرفداری کرنے پر کمر بستہ ہو چکے ہیں۔ ایسی حالت میں جو بھی دلائل مرزا اور مرزائیت کے بطلان پر قائم کئے جائیں گے آپ اسے قبول نہیں کریں گے۔

آپ نے بھی ہر بات میں اُسی طرح متضاد پہلوؤں کو اختیار کیا ہے جس طرح قادیانی کرتا تھا یعنی ایک طرف بظاہر خاتم النبیین پر ایمان تو دوسری طرف نبوت کا دعوی ۔ ایک طرف قرآن عظیم کی عظمت و رحمت اور آخری کتاب ہونے کا اقرار تو دوسری طرف براہین احمدیہ کی عظمت و رحمت اور کلام الہی ہونے کا دعوی ۔ ایک طرف قرآن پاک کے آخری آسمانی کتاب ہونے کا اقرارتو دوسری طرف نزول براہین احمدیہ کا دعوی ۔ ایک طرف حضرت عیسی sym-9کی عزت و نبوت کا اقرار تو دوسری طرف ان کی تو ہین اور اپنی افضیلت کا دعوی ، ایک طرف امتی ہونے کا اقرار تو دوسری طرف نبی و رسول بلکہ خدا کی صفات مخصوصہ وحدانیت و فردیت میں شریک ہونے کا دعوی وغیرہ وغیرہ۔

آپ نے لکھا ہے کہ میرے پاس مرزائیت کی پچاس کتا بیں ہیں ۔ اگر آپ واقعی سچے ہیں تو اس میں سے ایک کتاب ازالہ اوہام بھیج دیجئے ( کیونکہ یہ کتاب میرے پاس نہیں ہے ) تاکہ میں آپ کو آپ ہی کی کتاب سے دکھلا دوں کہ مرزا صاحب قرآن عظیم کے متعلق کیا کچھ لکھ گئے ہیں اور اگر آپ نہیں بھیج سکتے ہوں اور نہ خود مطالعہ کر سکتے ہوں تو صرف ان کے وکیلوں کی وکالت پر اعتماد کر لینا مناسب نہیں ہے۔

آپ نے قرآن عظیم کی جس آیہ مقدسہ پر اپنے شبہہ کا اظہار کیا ہے وہ قادیانیوں کا کوئی نیا شبہ نہیں ہے بلکہ یہ مرزا قادیانی کی دین اور اس کی نبوت کا سبہ کا ذبہ کا فیضان ہے کیونکہ قرآن حکیم کی تقسیم کے لئے وہ اپنی رائے کو ہی معیار قرار دیتا ہے کسی مفسر کا قول اور اصول تفسیر کو وہ قابل اعتناء نہیں سمجھتا۔ ایسی صورت حال میں اگر ہم کہیں کہ آیتہ متذکرہ کا معنی تفاسیر قرآن اور احادیث متواترہ کے عین مطابق ہے اور اس سلسلہ میں ہم تفسیروں کی عبارتیں بھی نقل کر دیں تو قادیانیوں کے نزدیک اس کی اہمیت اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوگی کہ بھینس کے آگے بین بجاؤ بھینس کھڑی پجیائے یا مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر باقی رہا قرآن عظیم میں تضاد بیانی کا سوال تو یہ قادیانیوں کے نزدیک مسلم ہے۔ بلکہ فہم قرآن رکھنے والوں کے نزدیک ہرگز ایسا متصور نہیں اور اگر قادیانی تقلید چھوڑ کر آپ بھی سمجھنے کی کوشش کریں تو بے تکلف تطبیق کے لئے بھی مطابقت نظر آئے گی۔

آیہ کریمہ متذکرہ کی عام طریقہ سے دو تفسیر مفسرین کرام نے بیان فرمائی ہیں۔ اول تو یہ کہ اہل کتاب یعنی یہود و مرتدین نصاری اپنی موت سے پہلے حضرت عیسی sym-9پر ایمان لے آئیں گے لیکن یہ ایمان چونکہ جانکنی کے وقت کا ہوگا لہذا قابل قبول اور نافع نہیں اور دوسرے یہ کہ جو یہود و نصاری مرکھپ کر باقی بچ جائیں گے وہ نزول مسیح sym-9کے وقت اپنی طبعی موت سے قبل ان پر ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ عالم اسلام کے مشہور و معروف و مفسر قرآن علامہ امام محمود زمخشری علیه الرحمة والرضوان کا وصال ۵۳۸ھ میں ہوا تھا اپنی تفسیر کشاف ص ۳۱۲ پر لکھتے ہیں: والمعنى وما من اليهود والنصارى والا ليومنن به قبل موته بعيسى وبانه عبده ورسوله الخ اور معنی یہ ہے ہے کہ کہ یہود و نصاری اپنی موت سے قبل عیسی sym-9 پر ایمان لائیں گے اس لئے کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔

اور امام السیر والتحقیق علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ تفسیر روح البیان جلد اول ص ۷۰۶ پر آیہ متعلقہ کی تفسیر اس طرح فرماتے ہیں: وان من اهل الكتاب اى ما من اليهود والنصارى احد الاليومنن ( اے بعیسی (قبل موته) ای قبل موت ذلك الاحد من اهل الكتاب يعنى اذعاين اليهودى امن الآخرة وحضرة الوفاة ضربت الملئكة وجه و دبره و قالت اتاک عیسی [symbol نبيا فكذبت فيو من حين لا ينفعه ايمانه الخ والمعنى (وما من اهل الكتاب الموجودين عند نزل عيسى من السماء احد الاليومنن به قبل موته الخ] یہود و نصاری میں سے کوئی بھی اہل کتاب اپنی موت سے قبل عیسی sym-9پر ایمان لاتے ہیں۔ کتابیوں میں سے ایک شخص از عانین اپنی موت سے قبل آخرت پر ایمان لایا اور موت آئی تو فرشتے نے اس کے چہرے پر تھپڑ رسید کیا اور چلے گئے اور فرمایا کہ حضرت عیسی sym-9 نبی بن کر تمہارے پاس آئے لیکن تم نے جھٹلا دیا اس وقت تم ایمان لاتے ہو تمہارا ایمان لا نا نفع نہیں دے گا۔ یا یہ معنی ہے کہ نزول عیسیٰ sym-9کے وقت موجود کتابیوں میں سے کوئی کتابی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے قبل حضرت عیسیٰ sym-9پر ایمان نہ لائیں گے۔ ان دونوں تفسیروں کی روشنی میں غور کیجئے کہ آیہ کریمہ متذکرہ کے اردو معنی میں ( جو ہم نے لکھا) کون سا تغیر اور فرق ہوا۔ ہم یقین و اعتماد کی منزل سے کہہ رہے ہیں کہ آپ ہزار کوشش کے باوجود تفاسیر بزرگان دین اور معنی فقیر میں صبح قیامت تک انشاء المولی الکریم سر موفرق نہیں نکال سکتے ہیں۔

ہاں آپ دوسری آیتوں کو پیش کر کے بزعم خویش یا بزعم مرزا یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں تضاد بیانی ہے لیکن یہ آپ کا زعم ہی ہو گا جس کو حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ آپ نے آیہ کریمہ: وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ (آل عمران: ۵۵) اور تیرے پیروں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا (کنزالایمان) لکھ کر اصطلاحات عربیہ و قرآنیہ کے خلاف یہ دعویٰ کیا ہے کہ قیامت کے دن تک عیسی sym-9کے متبعین (نصاری) ان کے منکرین (یہودی) پر غالب رہیں گے تو لا محالہ ان دونوں گروہوں کا وجود بھی قیامت کے دن تک رہے گا لہندا عیسی sym-9پر ایمان لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مرزائیوں کی طرف سے یہ دعویٰ صرف اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ صیح کذاب قادیانی کے دعوی مسیحیت کا پردہ چاک نہ ہو اگر آپ واقعی مرزائی وکیل نہیں ہیں تو اپنے ایمان کی روشنی میں بول دیجئے کہ انسی يوم القيمة “ سے قیام فی الحشہ مراد ہے، یا روز حشر مراد ہے یا قرب قیامت مراد ہے؟ اگر قیام فی الحشر یا یوم الحشر مراد ہے تو نفخ اولی کے بعد روئے زمین پر کونسا جاندار باقی رہ جائے گا نشان دہی کیجئے اگر فتحہ او کے اگر فحہ اولیٰ کے ساتھ ہی تمام جاندار فنا ہو جائیں۔ گے تو نتیجہ اولی کا تعلق یوم الدنیا سے یا یوم الآخرة والقیام سے یا اگر نفخه اولی کا تعلق يوم الآخرة والحشر سے نہیں ہے بلکہ دنیا سے ہے تو آپ صرف عیسی sym-9 کے متبعین و منکرین کے متعلق سوچ رہتے تھے یہاں تو کوئی بھی جاندار روئے زمین پر نظر نہیں آتا ہے پھر . الى يوم القيمة غلبہ وعدم غلبہ کا تصور کیونکر متصور ہے۔ یہ ہوا اس سیج نہی کا نتیجہ جو قادیانیوں کو مرزا سے وراثت میں ملی ہے۔ اگر قرآن کریم کو اسلاف کرام کی اتباع کی عینک لگا کر دیکھا جاتا اور سمجھا جاتا تو یہ مصیبت گلے نہ پڑتی ۔ لیکن وہاں مرزا اور مرزائیت کا دعوئی تو یہ ہے کہ قرآن کو کما حقہ ہم نے ہی سمجھا ہے کوئی دوسرا اس کے معنی و مطالب کو نہیں سمجھ سکا اور اس تکبر و غرور کئے سبب متکبر و مغرور اول نے اسے اپنے الہام کا مرجع و مرکز بنا دیا ہے جسے وہ الہام رحمانی قرار دے رہا ہے۔

الى يوم القيمة “ تمام اصطلاحات عرب و عجم کے اندر مدت مدیدہ کے لئے مستعمل ہوتا ہے اگر اونی مبتدی بھی الی پر غور کرے تو واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ عالم اسباب کے ایام، عالم امر کے ایام میں بوجہ اختلاف نوع کے داخل نہیں : ہوں گے زیادہ سے زیادہ الی انتہائے قرب قیامت کو واضح کر رہا ہے نہ اور مسلمان اسی کا قائل ہے کہ حضرت عیسٰی sym-9 کے متبعین و منکرین کے درمیان قرب قیامت تک بغض و بیر رہے گا نہ کہ قیامت کے (اصلی) دن تک جیسا کہ مرزائیوں نے سمجھا۔ اور مسلمان اس کا بھی قائل ہے کہ قرب قیامت ہی میں حضرت عیسی مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کا نزول عن السماء ہوگا اور یہ ایسا اجماعی قطعی مسئلہ ہے کہ کسی اہل اسلام کے نزدیک کسی طرح کا اختلاف اس میں وارد نہیں ہے اور قادیانیوں کے اختلاف کا کوئی اثر بھی اجماعی عقیدہ پر نہیں پڑے گا۔

پھر یہ تمام مشکلات آپ پر اس وجہ سے آئیں کہ متبعین عیسی sym-9سے آپ نے گروہ نصاری کو مراد لے لیا ہے حالانکہ یہ عام مفسرین کی تفسیروں کے خلاف ہے صرف مرزا قادیانی کی جودت طبع نے نصاری کے گروہ کو متبعین عیسی علیہ السلام سمجھا بلکہ مختص کر دیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ متبعین عیسی sym-9 سے مراد وہ عیسائی ہیں جنہوں نے اپنے مذہب میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں کیا یا وہ مسلمان ہیں جو حضرت عیسیsym-9 کے پیغامات توحید ورسالت کو حقیقت مان رہے ہیں چنانچہ اس تغییر روح البیان ص ۴۵۴، ج ۱- وجاعل الذين اتبعوك وهم المسلمون لانهم اتبعوه في اصل الاسلام فوقهم ظاهرين بالعزة والنعمة والحجة الى يوم القيامة "اور اللہ تعالیٰ تیرے تابعداروں کو غلبہ دینے والا ہے۔ اس سے اہل اسلام مراد ہیں اس لئے انہوں نے ہی اصل اسلام میں عیسیٰ sym-9کی تابعداری کی ان پر جو ظاہری طور پر عزت اور نعمت ہیں اور قیامت تک حجت ہیں ۔ پھر تفسیر فتح القدیر ص ۳۱۳ ج امیں ہے ”و جاعل الذين اى الذين اتبعوا ما جئت به و هم خلص اصحاب الذين لم يبلغوافي الغلوفيه الى ما بلغ جعله الها ومنهم المسلمون فانهم اتبعوا ماجاء به عيسی sym-9الھ اور غلبہ دینے والا ہے ان لوگوں کو جنہوں نے حضرت عیسٰی sym-9کی اتباع کی اور غلو نہیں کیا جبہ یا کہ بعض لوگوں نے غلو کیا کہ انہیں معبود بنا دیا۔ اور انہیں میں سے مسلمان ہیں کہ حضرت عیسیsym-9 جو لے کر آئے اس کی اتباع کی اگر مفسرین قرآن کے دامن کو تھام کر آپ نے آیت کریمہ کو سمجھا ہوتا تو یقینا تضاد نظر نہیں آتا۔ اور آپ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوتے کہ انشاء اللہ العزیز مسلمان اپنی عزت و نصرت خداوندی کے ذریعہ قیامت تک منکرین عیسی sym-9 ( خواہ یہودی ہوں خواہ نصاری ) غالب و فائق رہیں گے۔ یہ آپ کے اس شبہ کا ازالہ تھا جو دو آیتوں کے درمیان آپ سمجھ رہے تھے۔ اسی طرح پورے قرآن عظیم میں کہیں بھی تضاد نظر آئے تو سلف صالحین مفسرین کرام کے دامن میں پناہ لیجئے انشاء اللہ المولی الکریم عقدہ کشائی ہوتی جائیگی ۔ اور اگر مرزائیت - کر مرزائیت کے دلدل میں پھنس گئے ہوں۔ تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں ہے آپ نے اپنے سوالنامہ میں ایک حسین فریب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مرزا کا دعوی نبی ہونے کا نہیں بلکہ امتی ہونے کا تھا۔ اس کا اور اس سے متعلق عبارتوں کا جواب ہم نے سطحی طور پر دیدیا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے آپ کو واقعی حق کا متلاشی اور قادیانیت سے دور سمجھا تھا کہ دور سمجھا تھا لیکن جب آپ کے دوسرے قادیانیت نواز مضمون نے راز ہائے بستہ کو واشگاف کر دیا تو پھر ہمیں حقیقت کے ظاہر کرنے میں کیا باک ہے۔ آپ نے مرزا صاحب کی جودوکالت کی ہے وہ مرزا کی بولی اور اس کی تحریر کے قطعاً خلاف ہے۔ یا تو آپ نے اس کی اصلی تحریروں کو نہیں دیکھا ہے۔ یا پھر دیدہ و دانستہ خلاف واقعہ با او دانسته خلاف واقعہ بات لکھ گئے ہیں۔ آج سے اتنی تہ بات کر گئے ہیں۔ آج کیوں نے بھی مسلمانوں کو یہی فریب دیا تھا کہ ہمارے مرزا صاحب نبوت کا دعوی نہیں کرتے ہیں بلکہ سال پہلے بعض نا واقف مرزائیوں نے بھی مسلما امتی ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ جس کو سن کر آنجہانی مرزا صاحب آگ بگولہ ہو گئے تھے اور مرزائیوں کے اس دعوئی کو عظیم غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہر نومبر ۱۹۰۹ء کو ایک تردیدی بیان بنام ایک غلطی کا ازالہ شائع کیا جسکو محمد یسین مہتم احمد یہ کتب خانہ قادیانی نے چھاپا۔ مرزا صاحب کا جواب اور دعوئی ملاحظہ ہو۔ مندرجہ ذیل تینوں دعوئی اسی اشتہار کے ہیں۔

(1) خدائے تعالی کی وہ ایک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں رسول اور مرسل اور نبی کے الفاظ موجود ہیں ہیں ایک دفعہ بلکہ صد ہا دفعہ ( آپ تو صرف نبی کے دعوئی کا انکار کر رہے تھے یہاں صاف طریقہ سے مرزا نے وحی الہی کا دعویٰ کیا نبی کا دعوی کیا رسول کا دعویٰ کیا یہاں تک کہ مرسل کا دعوی کیا۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ آپ بچے ہیں یا مرزا صاحب اگر ہو سکے تو۔ صالحین کے کتب عقائد اور اصول شرع کو دیکھ کر یہ بھی بتانے کی زحمت کریں کہ رسول و مرسل کے کہتے ہیں تا کہ آپ کے اس تک کہ مرسل ڈھونگ کا بھی پردہ چاک ہو جائے کہ مرزاغلام احمد احمد قادیانی کوئی نئی شریعت مسلمانوں پر لا دنا نہیں چاہتے تھے )

(۲) براہین احمد پہ شائع ہو چکے ہیں ان میں سے ایک یہ وحی اللہ ہے ۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (سوره توبہ ۳۳) وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ ات سب دینوں ے۔ (کنز الایمان ) اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کہہ کے پکارا گیا ہے۔ (العیاذ باللہ تعالیٰ کیا مرزائیوں کا ضمیر پر غالب کرے ۔ (کنز الایما اس قدر مردہ ہو چکا ہے کہ وہ قرآن عظیم کی اس آیہ مقدسہ کے منا ن عظیم کی اس آیہ مقدسہ کے مفاد و منشاء اور مرجع کو بھی نہیں سمجھ سکے سکے۔ کیا یہ قرآن عظیم میں کتر بیونت اس کی چوری اور اس کی عظیم لفظی و معنوی تحریف نہیں ہے اور کیا یہ وضع الشنی علی غیر محله شئی کو اپنے محل کے علاوہ پر رکھنا ظلم ہے ، نہیں ہے۔ اب بولئے اور اگر رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہے تو اس کی روشنی میں بولئے کہ مرزا صرف نبی ورسول ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے سید المرسلین صلوات اللہ تعالیٰ و سلامہ علیہ علیہم اجمعینکے گلدستہ نعت اور آیت تعارف کو اپنی اسرائیلی ذات پر چسپاں کر کے سید المرسلین بننا چاہتا ہے۔

(۳) پھر یہ بھی وحی اللہ ہے ۔ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُ حُمَاءُ بَيْنَهُمْ(سوره : ۲۹) محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافرون پرسخت ہیں اور آپس میں نرم دل کنز الایمان ) ۔ اس وحی الہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی (مرزا ) ( دیکھا آپ نے جو آیہ کریمہ حضور انور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم اور جانثار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی عظمتوں کے اظہار کے لئے قرآن مجید میں موجود ہے۔ رہے۔ اس کو مرزا نے اپنے اوپر ڈھال لیا اور یہ خیال نہ کیا کہ فقہائے اسلام کے نزدیک نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا محمد رسول اللہ ہونے کا دعوی کرنا بدترین کفر ہے۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی کہہ سکتا ہے مرزا نے نبی ہونے کا دعوی نہیں کیا ؟ ۔ مرزا نے صرف نبی ہونے کا دعوی نہیں کیا بلکہ نبی الا نبیاء ہونے کا دعوی کیا کیونکہ محمد رسول اللہ وہی ہیں جو نبی (1) نبیاء میں صلوات اللہ تعالٰی وسلام علیہ علیہم اجمعین۔

اب کوئی مرزائی یہ بھی دعوی نہیں کر سکتا ہے کہ مرزا کا مقصد نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کی شان ارفع و اعلیٰ کو دنیا پر ثابت کرنا تھا کہ رفعت کی کلاہ افتخار کوتو مرزا نے اپنے سر اوڑھنے کی کوشش کی ہے۔ اور جب اہل عظمت کی ٹوپی اہل ذلت کے سر رکھ دی جائے تو یہ اہل عظمت کی تعظیم نہیں بلکہ کھلی ہوئی تو ہین ہے لیکن مرزائی اس توہین رسالت کو بھی عین اسلام اور اصل ایمان سمجھ رہے ہیں۔

آپ نے لکھا ہے کہ مرزا کا دعوی امتی ہونے کا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے صرف اس کے تبلیغی لٹریچر ز کو ہی دیکھا ہے اور اس کی مذہبی کتابوں کے مطالعہ کا اتفاق نہیں ہوا ہے۔ سنئے اور مزرا کے ان دلائل و براہین کی روشنی میں سنیئے جو بقول مرزا اسے منجاب اللہ حاصل ہے۔ اور جو بطور وحی اس پر نازل ہوئے ہیں نہ گوڈ از کمنگ ہائی ہر آرہی ہی از وڈیو ٹو کل امینی ، خدائے تعالیٰ دلائل و براہین کا لشکر لیکر چلا آتا ہے۔ وہ دشمن کو مغلوب اور ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے۔ (ترجمہ مرزا براہین ص ۴۸۴، ج ۱) افسوس یہ ہے کہ جن براہین کے ساتھ مرزا خدا بنکر چلا تھا یا مرزا کا خدا مرزا کی مدد کرنے کو چلا تھا وہ قادیانی کی کسی اہم جھاڑی ( غالبا فاطمی جھاڑی جس میں مرزا شکار کھلتا تھا میں اُلجھ کر رہ گیا اور نہ اس کے دشمن اب تک ضرور ہلاک و مغلوب ہو گئے ہوتے ہیں بہر حال انہیں براہین آسمانی کے مندرجہ ذیل دعوؤں کو مطالعہ کیجئے اور فیصلہ کیجئے کہ مرزا صاحب امتی ہونے کا دعوی کر رہے ہیں یا کچھ اور ؟

(1) اسی کتاب میں میری نسبت یہ وحی اللہ ہے کہ جری الله في حلل الانبیاء ۔ یعنی خدا کا رسول نبیوں کے حلول میں ترجمہ مر را براہین احمدیہ غور کیجئے جو نبیوں میں تحلیل ہو گا وہ نبی ہوگا یا امت؟ کیا آج تک کوئی نبی ایسا بھی ہوا ہے جو نبی و رسول بھی ہو اور امت بھی؟ پھر یہ حلیل کا مذہب و عقیدہ آریہ دھرم کا ہے یا اسلام کا ؟ بار بار مرزا کا یہ کہنا ہے کہ یہ وحی اللہ ہے وہ وحی اللہ ہے دعوی نبوت ہے یا دعوی امت؟ کیا ایک شخص مسند آرائے نبوت ہو اور اسی وقت آن وہ امتی بھی ہو یہ ممکن الوقوع ہے؟ شاید آپ یہ کہیں کہ اس سے تو عیسیsym-9کی نبوت پر ضرب لگتی ہے تو آپ کان کھول کر سن لیں کہ حضرت سید نا عیسیsym-9کے متعلق تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیsym-9 نبی صادق ہیں نبوت ان کو ستلزم ہے۔ مگر نزول من السماء کے بعد نہ دعوی نبوت فرمائیں گے۔ اور نہ ہی اپنی نبوت کے کام کو انجام دیں گے بلکہ دین اسلام کے ان اہم خدمات کو انجام دیں گے جو ایک اعلیٰ و افضل امتی دیتا ہے اور وہ اسی سبب سے امتی کہلائیں گے شرح فقہ اکبر ص ۱۳۶ پر ہے۔ ويقتدى به ليظهر شریعته لنبينا صلى الله تعالى عليه وسلم كما اشار الى هذا المعنى صلى الله تعالى عليه وسلم بقوله الخ ۔ اور حضرت عیسیsym-9 اس کی قتداء کریں گے تا کہ ہمارے نبی علیہ اصلاح والسلام کی شریعت ظاہر ہو جائے جیسا کہ بی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں اس معنی کی طرف اشارہ فرمایا ، لیکن مرزا صاحب کو تو خدا بنے کا بھوت سوار تھا۔ وہ کیونکر امتیوں کی صف میں رہنا گوارہ کرتے۔ اپنی کتاب براہین احمدیہ ص ۲۵۳ ج ا کے حاشیہ در حاشیہ میں مرزا نے ایک عجیب و غریب خواب گڑھا ہے میں نے مسیح اللہ علیہ السلام کے ساتھ یہ دیکھا کہ ایک غیبی کا غذ ایک نامعلوم سید صاحب کو پڑھنے کیلئے دیا گیا جس کو سید صاحب پڑھ رہے تھے۔ وہ کاغذ اخیر تک پہنچ گیا اور کچھ تھوڑا ہی باقی رہا تب اس عاجز کا نام آیا باقی رہا تب اس عاجز کا نام آیا جس میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ تعریفی عبارت عربی زبان . میں لکھی ہوئی تھی۔ ھو منی بمنزلة توحيدي وتفريدي فكادان يعرف بين الناس الخ ۔ (براہین مطبوعہ سیالکوٹ ) ۔ وہ غلام احمد مجھ سے ہے جو میری توحید کی منزل پر براجمان ہے اور میری تفرید کا نشان ہے بہت ہی جلد لوگوں میں معروف ہوں گے خدا کی توحید و تفرید کی منزل پر قیام کا مطلب و مقصد آپ خود سمجھیں گے یا سمجھا دیا جائے اگر سمجھایا جائے گا تو شاید آپ کو تکلیف گزرے گی اس لئے آپ خود ہی سمجھئے اور سوچئے کہ خدا کی صحت و مخصوص وحدانیت و فردیت خدا کی ذات سے علیحدہ کوئی چیز ہے یا خدا اس کو کہتے ہیں جو احدیت و فردیت سے مخصوص ہے پھر مرزا کو یہ بھی خبر نہیں ہوئی کہ جب خدا کی توحید و تفرید میں مرزا کی شرکت علی العموم ہو چکی تو اب توحید و تفرید کی وحدت و فردیت باقی کہاں رہی؟ اس طرح مرزا نے خدائے تعالیٰ کو واحد و فرد ہرگز نہیں مانا حالانکہ اسلام کے نزدیک یہ صریح کفر و شرک ہے ۔ قل هو الله احد(سورہ اخلاص:1) " تم فرماؤ وہ اللہ ایک ہے ( کنز الایمان ) خدا کی وحدانیت میں شرکت کے شوق نے مرزا کو اس طرح پاگل و دیوانہ بنا رکھا تھا کہ اس کے لئے یہ تمام ڈھونگ رچائے گئے ۔ آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر کوئی شخص زندگی بھر خدائے واحد کی پرستش کرتا رہا۔ اور اس کے معبود حقیقی ہونے کی تسبیحیں جیتا رہا۔ لیکن ایک بات بھی خدائے وحدہ لاشریک کی ذات یا صفات مخصوصہ میں شرکت کا دعوی کر گیا تو با تفاق علمائے اسلام اب اس کا کوئی نصیبہ دائرہ اسلام میں نہیں ہے۔ اب نہ وہ امت والا رہا نہ ہستی رہا بلکہ لعنتی بن گیا إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أن يُشْرَكَ به کتبہ. ( النساء: ۳۸) بیشک اللہ اسے نہیں بخشا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ( کنز الایمان )

مرزا صاحب علی منزلہ توحیدی نہیں کہا کہ ہو سکتا منزل توحید کی بلندی سے اگر لڑھک گئے تو اسفل السافلین میں پہنچتے پہنچتے کوئی ہڈی بھی سالم نہیں رہے گی۔ اس لئے (بمنزلة توحیدی ۔ میری توحید کی منزل میں ) کہہ کر اسی منزل میں تحلیل ہو جانا چاہتے ہیں کہ وحدانیت الہی میں میری غیر شرکت کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہے۔ یہ بات خواب ہی تک محدود رہتی تو اتنی قابل گرفت نہیں تھی مگر مرزا نے اسے براہین احمدیہ میں نقل کر کے وحی الہی کا مقام دیدیا۔ کیونکہ یہ پوری کتاب ہی مرزائیوں کے نزدیک الہامی و وحی اللہ ہے ۔ بلکہ مرزا صاحب نے اس خواب کو بیان کرنے کے بعد اس کو ہندو و مسلم سب کے درمیان بار بار بیان کر کے خوب ہی شہرہ دیا اور براہین میں اس کے متعلق یہ دعویٰ کیا کہ اسی وقت بطور الہام بھی (مذکورہ داستان ) القاء ہوا۔ براہین مفید عالم پریس مطبوعہ ۱۹۰۰ء)

(۲) اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے الخ ۔ میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی۔ (ایک غلطی کا ازالہ مطبوعہ قادیان ۱۹۰۱ء) مهبط وحی انہی بنے اور امت کی محکومی سے نکلنے کے لئے کس شدومد کے ساتھ قسم کھانے کی تیاری ہے۔ یہ صرف اسی لئے کہ میرا دعوی نبوت کسی طرح عوام میں قابل اعتبار ہو جائے۔ لیکن کیا امتی ہونے کے لئے کبھی انہوں نے اپنی دہلیز پر بھی قسم کھانے کا اعلان کیا؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو ان پر اس دعوئی کو مسلط کرنا مرزائیوں کی وفاداری ہے یا بے وفائی ؟ اور پھر ایک دلفریب انداز میں مرزا نے اپنے امتی ہونے کا انکار کیا ہے لکھتے ہیں خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کی رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت با ہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جو ہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحر اتحاد ہے ( براہین ص ۴۹۹، ج ۱) کیا آپ یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ حضرت عیسی مسیح sym-9 اپنی پہلی زندگی میں کسی کی امت تھے اگر آپ یہ بتانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو ممکن ہے کہ آپ کا دعوی کسی حد تک ثابت ہو جائے لیکن آپ اگر یہ ثابت نہیں کر سکیں کہ حضرت عیسی sym-9بحیثیت امت اس دنیا میں آئے تھے یا بحیثیت نبی وامت دونوں یہاں تشریف لائے تھے تو مرزا کے دعوئی مشابہت کو کسی پاگل و مجنون کی بڑیقین کرنا ہوگا۔ اور پھر اپنے دعوئی سے بھی منحرف ہونا پڑے گا۔ یہ خیال نہ کیجئے کہ مرزا نے حضرت مسیح sym-9سے صرف اپنی مشابہت کا دعوی کیا ہے اگر چہ یہ بھی عند الشرع کفر ہے وَمَا هُوَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وہ تو ہمارے ہی طرح بشر ہیں بلکہ کہیں اُن پر اپنی برتری و فضیلت کو ثابت کیا اور کہیں بے تحاشہ توہین آمیز جملے استعمال کئے۔ کشتی نوح آپ نے ضرور مطالعہ کیا ہو گا جس کو مطبع ضیاء الاسلام قادیان نے ۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو شائع کیا اس کے ص ۲۶ پر ہے۔ گو خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیح محمدی (مرزاغلام احمد ) صحیح موسوی ( عیسی sym-9) سے افضل ہے۔ ” کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مفضول جب اُمتی نہیں ہے تو افضل امت کیسے ہوگا ؟ مرزا قادیانی۔ حضرت عیسی sym-9کی گذشتہ ہی زندگی میں مفضولیت کا قائل نہیں ہے بلکہ آئندہ کے لئے بھی دعویدار ہے کہ اب اور کوئی فضیلت حضرت عیسی sym-9 کو ملنے والی نہیں ہے چنانچہ دافع البلاء مطبوعہ قادیان ۱۹۴۶ء ص ۱۳ پر ہے۔ اب خدائے تعالیٰ کوئی نئی عظمت ابن مریم کو دینا نہیں چاہتا " سبحان اللہ یہ مرزا صاحب منشاء الہی کے ٹھکیدار ہں جس کو چاہیں عظمت دلائیں اور جسے چاہیں روک دیں ۔

اصل میں انبیاء sym-3 کی تو ہین کا خوگر یہ سب مقدمات صرف اس لئے قائم کر رہا ہے کہ دل کھول کر حضرت عیسیsym-9 اور ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم علی اینا وعلیہا السلامکتبہ نیز ان کے پورے خاندان کو گالیاں دی جائیں ۔ اسی دافع البلاء کے ص ۲۰ پر ہے۔ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑ دو۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے۔ اس شعر کے بعد ہی مرزا لکھتا ہے کہ یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں۔ غور کیجئے کہاں تو مماثلت اور مشابہت کا دعوئی تھا اور کہاں افضل و بہتر ہونے کا راگ الاپنے لگے۔ کیا اس میں خدا کے ایک عظیم و جلیل اور اولو العزم پیغمبر کی کھلی ہوئی تو ہیں نہیں ہے؟ جب مفضول و کہتر ( مقبول مرزا ) امت کی صف سے بلند و بالا اور نبوت وروح اللہ کے مقام ارفع واعلی کی مزل پر متمکن ہے تو جو شخص ( معاذ اللہ اس سے افضل وبہتر ہوگا وہ امت کی صف میں یا امت و نبی دونوں کے درمیان معلق کیونکر رہے گا۔؟

آپ نے مرزا کے اس پورچ دعوئی کو پھر دہرایا ہے کہ مرزا صاحب قرآن وحدیث سے حضرت عیسیsym-9 کی وفات ثابت کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ مرزا کو جس نے نبی بنایا ہے وہ نبیوں کا ازلی دشمن ہے۔ اور غارت گر ایمان بھی وہ کب چاہے گا کہ کسی نبی کی عظمت باقی رہے اور ان کی امت ان کی عظمت خداداد کے سامنے اپنے عقیدت و محبت کی جبین کو نیکتی رہی وہ تو چاہتا ہے جس طرح 1 میں عظمت نبوت کا انکار کر کے مردود بارگاہ ہو چکا ہوں۔ سب کو اپنے جیسا ہی بنادوں چنانچہ مرزا نے حضرت عیسی علیہ السلام کی ہی نبوت و عظمت کے ساتھ صرف کھلواڑ ہی نہیں کیا ہے اور صرف ان کی وفات کو ثابت ہی نہیں کیا ہے بلکہ آسمان سے اپنے کندھوں پر اتار کے کشمیر کے ایک محلہ میں دفن بھی کر دیا ہے۔ کیا تجب کہ ان کے قاتل بھی یہ خود ہی ہوں ملاحظہ ہو دافع البلاص ۱۳ جوشخص کشمیر سری نگر محلہ یار خان میں مدفون ہے اس کو ناحق آسمان پر بٹھایا گیا کس قدر ظلم ہے۔ یہ ہے مرزا کی نفسانیت کہ جس ذات گرامی کو اللہ تعالیٰ نے رفعت و بلندی عطا فرمائی اس کو وہاں سے بھینچ کر کشمیر میں دفن کر دیا اور خود چازاد ( فاطمہ ) کی انچل پر بیٹھ کر توحید و تفرید کی منزل سے چمٹ جانے کی کوشش میں ہے۔ یہ البتہ ہو سکتا ہے کہ کشمیر میں کسی بزرگ مسمی عیسی کا مزار ہو لیکن یہ کیسے دعوئی کر دیا وہ حضرت عیسی مسیح sym-9 ہی کا مزار ہے؟ یہ تو وہی ہوا کہ برسبیل مسافرت ایک مرتبہ کا تب الحروف جے پور میں یہاں ٹھہرا ہوا تھا تو معلوم ہوا کہ یہاں حضرت آدم کا مزار ہے میں متعجب ہوا کہ شمع نیازی حضرت آدم مرزا حبیب بیگ پاریس کے یہاں کہ نیازی کے مزار شریف کی تلاش و اد جستجو جستجو میں میں اپنے اپنے ج خمیری وطن اجودھیا سے خانہ کعبہ تک پہنچ گیا لیکن اسے باوجود امریکی کثیر رڈالرخرچ ڈالر خرچ کرنے کے اس کا صحیح سراغ نہیں مل سکا اور حضرت آدم کا مزار جے پور میں؟ دل کو مطلقا یقین نہیں آیا پھر بھی خیال ہوا کم از کم اس قبر کو دیکھ مر ہوئی تو دیکھا کہ بہت سے زائرین وہاں پہلے ہی سے موجود ہیں میری حاضری کی اطلاع پا کر کچھ ہائے۔ جب مزار پر حاضر ہوئی تو دیکھ تو لیا جائے ۔ ج میرے ملاقاتی اور مزار شریف کے بعض ذمہ دار حضرات وہاں پہنچ گئے ۔ پہنچ گئے ۔ فاتحہ خوانی کے بعد اس مزار سے متعلق گفتگو شروع ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ کوئی مجذوب لوئی مجذوب الحال بزرگ تھے جن کا نام حضرت آدم تھا نام کی مماثلت کی وجہ سے یہ بات اس طرح مشہور ہوگئی گویا یہ حضرت آدم ابوالبشرsym-9 ہی کا مزار پر انوار ہے اور بہت سے ناواقف اسی نیت سے یہاں حاضر بھی ہوتے ہیں۔ بس یہی مغالطہ مرزا قادیانی کو بھی کشمیر میں واقع قبر کے متعلق ہوا ہے۔ مرزا قادیانی نے حضرت عیسی sym-9کی وفات کو قرآن وحدیث سے نہ تو ثابت کیا ہے۔ اور نہ کر سکتا ہے کیونکہ ان کا حیات کے ساتھ آسمان پر اٹھایا جانا معتقدات اسلامی سے ہے جس کا ثبوت نصوص قطعیہ احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ہے اور مرزا صاحب نے اس سلسلہ میں جو حدیثیں پیش کی ہیں وہ سب رواۃ و اسناد کے اعتبار سے مخدوش و معلول ہیں اور معارضہ کے وقت احادیث متواترہ کا وہ کسی طرح مقابلہ نہیں کر سکتی ہیں اور پھر عقائد کا مسئلہ دلیل قطعی کے بغیر مسلم نہیں ہو سکتا ہے۔ دلیل قطعی (۱) نصوص قطعی (۲) احادیث متواترہ اور (۳) اجماع امت ہے۔ تو اب آپ مرزا کی وکالت کرتے ہوئے بتائیے کہ ان کے دلائل متعلق بہ وفات عیسی علیہ السلام، دلائل قطعیہ کے کسی قسم میں داخل ہیں اور جس قسم میں داخل ہیں اس کے شواہد کیا ہیں ؟ ہو سکتا ہے آپ قرآن عظیم کی دو ایک آیات کریمہ پیش کر کے یہ کہیں کہ یہ نصوص قرآنی ہے تو قبل از وقت یہ عرض ہے کہ جو آیتیں آپ اس سلسلہ میں پیش کریں گے وہ سب آپ کے مفاد کے خلاف واقع ہونگیں۔ چنانچہ سوال نامہ میں آپ نے جس آیہ کریمہ کو پیش کیا ہے عنقریب اس کی صحیح تفسیر کے ساتھ میں یہ بتاؤں گا کہ جس آیت سے آپ کے مرزا نے وفات عیسی sym-9ثابت کیا ہے اکابر علماء اسلام کے نزدیک اس آیت سے حیات مسیح sym-9 ثابت ہے۔

جس پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے اور پھر مرزا کے دیگر دلائل بھی تو اب ڈھکے چھپے نہیں رہ گئے ہیں۔ لہذا الصوص قرآنیہ سے اس سلسلہ میں جو بھی آپ دعوئی کریں گے وہ سب یونہی رہ جائے گا۔ اور جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو آپ اس میں بھی بالکل ہی بے یارو مددگار رہیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ دو ایک علمائے سلف کی عبارتیں اس باب میں پیش کرنے کی جرات آپ کریں گے۔ لیکن انشاء اللہ تعالیٰ انہیں اسلاف کرام کے اقوال لامعہ سے آپ کے دعوئی کی حقیقت ظاہر کر دی جائے گی۔

اب سنئے مرزا کے مذکورہ دعوی کے خلاف اکابر علمائے اسلاف کی تشریحات انہیں نصوص قرآنیہ کی تحت جن کو مرزا یا اس کے متبعین نے اپنے اس دعوٹی کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔

(1) تفسیر روح البیان ص ۴۵۴ ج للعلامة الفهامه الشيخ اسماعیل حقی علیہ الرحمة ( وَإِذْ قَالَ اللهُ ) (آل عمران: ۵۵) ای اذكر وقت قول الله (يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ) اى مستوفی اجلک و معناه انی عاصمك من ان يقتلك الكفار ومؤخرك الى اجل كتبة لك ومميتك حتف انفك لاقتلا بايديهم ورافعك) الآن (الی) ای الی محل کرامتی و مقر ملائكتي وجعل ذلك رفعاً اليه التعظيم اور یاد کر جب اللہ نے فرمایا اے عیسی میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا یعنی اللہ کے فرمان کے وقت کو یاد کرو یعنی تمہاری اجل کو میں مکمل کروں گا اور معنی یہ ہے کہ میں تمہیں تمہارے قاتل کفارے محفوظ رکھوں گا اس میعاد تک جو میں نے تیرے لئے لکھی ہے اور میں تمہیں طبعی موت دوں گا ان کے ہاتھوں سے قتل نہیں ہوگا اور تمہیں اپنی طرف اٹھالوں گا۔ یعنی محل کرامت (آسمان) و مقر ملائکہ فرشتوں کے ٹھہرنے کی جگہ تک اٹھالوں گا۔ اور تمہارا میری طرف اٹھایا جانا تمہارا اعزاز و اکرام ہے ۔“

کیا آیتہ مذکورہ اور اس کی تفسیر سے یہ واضح طور پر معلوم نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیsym-9کی عصمت و محافظت کو اپنے ذمہ کرم پر لے لیا ہے اور ان کی موت کو ایک مدت کے لئے مؤخر فرما دیا ہے کہ جب موت دینا منظور ہو گا۔ تو انہیں طبعی موت دے گا ؟ اور کیا اس عقیدہ کی اس سے پوری وضاحت نہیں ہو گئی کہ حضرت عیسی sym-9 کو مقام کرامت یعنی آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے؟

(۲) تفسیر فتح القدیر ۳۱۳ جا، العلامة الشوکانی علیہ الرحمہ (وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ) اى من حيث جو از هم برفعه الى السماء وبعده عنهم الخ ”اور تمہیں کافروں سے پاک کر دوں گا اس طرح کہ آسمان کی طرف تمہیں اٹھا کر اور کفار سے دور کر کے ۔“ کیا اس سے معلوم نہیں ہوا کہ یہودیوں کے دسترس سے بہت دور آسمان پر حضرت عیسی sym-9کو اٹھا لیا گیا ہے۔

(۳) تفسیر حقی ص ۷۰۴، ج : (بَلْ رَّفَعَهُ الله إِلَيْهِ ) (النساء : ۱۵۸) رد او انكار القتله واثبات لرفعه قال الحسن البصرى اى الى السماء اللتى هى محل كرامة الله تعالى وملئكته ولا يجرى فيها حكم احد سواه فكان رفعه الى ذلك الموضع رفعا اليه تعالى لانه رفع عن ان يجرى عليه حكم العباد الخ بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۔ یہ آیت کریمہ رو اور ان کے قتل کا انکار اور ان کا آسمان کی طرف اٹھائے جانے کا اثبات ہے۔ اور حسن بصری sym-4نے فرمایا کہ انہیں آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا جو اللہ اور فرشتوں کی مل کر امت ہے۔ جس میں اللہ کے سواکسی کا بھی حکم نہیں چلتا ہے۔ تا کہ ان پر بندے کا حکم نہیں چل سکے۔“

کیا اس تفسیر قرآنی سے پوری وضاحت کے ساتھ حضرت عیسیٰ sym-9 کا آسمان پر اٹھایا جانا معلوم نہیں ہو رہا ہے جب متعدد آیات قرآنیہ اور اس کی تفاسیر سے آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا ثابت ہے تو اب ملاحظہ فرمائیے کہ عیسی sym-9کو موت کب اور کہاں آئے گی۔

(۴) تفسیر جلالین، کمالین، مدارک، بیضاوی وغیر ہا میں ہے: (وَإِنَّهُ) ای عیسى (لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ ) اى علامة القيمة "عیسی sym-9 کا نزول قیامت کی نشانی ہے۔ یعنی قیامت کی علامت ہے۔ نزول عیسیsym-9 انتہائی قرب قیامت کی . نشانی ہے اور نزول کے بعد ہی آپ کا وصال ہو گا چنانچہ

(۵) تغیر کشاف ص ۱۹۲، ج پر اس مسلہ کو اور بھی زیادہ واضح کردیا ہے نزول عن السماء کے بعد آپ کی روح زمین پر قبض کی جائے گی ۔ ( وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ) من سوء جوارهم وخبث صحبتهم وقيل متوفيك قابضك من الارض الخ . " کافروں سے تمہیں پاک کر دوں گا برے پڑوسیوں اور خراب صحبت سے اور کہا گیا کہ نزول عن السماء کے بعد تیری روح زمین پر قبض کی جائے گی ۔ ان آیات و تفاسیر کے بعد کتب کلام میں سے بھی باب عقائد میں علمائے سلف کا ایک حتمی فیصلہ آپ یہ سمجھ سکیں کہ قرآن وحدیث سے ہمارے اسلاف نے اس باب میں کیا عقیدہ حاصل آپ کے سامنے رکھ دینا ضروری ہے تا کہ آپ یہ سمجھ سکیں کہ قرآ کیا ہے اور غلام احمد قادیانی اسلاف کے دامن سے ہٹا کر مسلمانوں کسی طرف لے جانا چاہتا ہے اقبال نے بڑی اچھی بات کہی۔ قرآن ہے:

دولت اغیار را رحمت شمرد
رقص ہائے کلیسا کر دو مرد
دوسروں کی دولت کو رحمت شمار کیا
محمد اور کلیسا کا ناچ کیا اور مر گیا
}}

شرح فقہ اکبر عقائد حقہ پر مشتمل ایک مشہور و معروف اور قابل استناد کتاب ہے کہ با وجود اختلافات مسلک کے مختلف جماعتوں کے اکابر اس کتاب کو باب عقائد میں مسلم جانتے مانتے ہیں۔ اس کے ص ۱۳۶ پر اشیخ الامام علامہ علی قاریsym-4 فرماتے ہیں: ( وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لِيُؤْمِنُنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِه) اى قبل موت عيسى sym-9بعد نزوله عند قيام الساعة فيصر الملل واحدة وهى ملة الاسلام الحنفية (سورۃ النساء:۱۵۹) کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے یعنی عیسیsym-9 کی موت سے قبل نزول کے بعد قرب قیامت کے وقت اور تمام ادیان میں صرف ایک ہی دین دین اسلام ہوگا۔ معلوم ہوا کہ عیسی sym-9 کے نزول کے بعد اور موت سے پہلے قرب قیامت میں موجودہ تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے اور صرف ایک ملت اسلامیہ حنفیہ باقی رہ جائینگی کتاب مذکور میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے کہ حضرت عیسی sym-9نزول کے بعد کیا کیا خدمت اسلام انجام دیں گے۔ کتنی عمر میں وفات پائیں گے۔ ويبقى فى الارض اربعين سنة ثم يموت . "زمین پر چالیس سال زنده رہیں گے پھر وفات پانے میں ہے۔“ کون کون لوگ جنازہ کی نماز پرھیں گے ویصلى عليهم المسلمون الخ(مسلمان ان جنازے کی نماز پڑھیں گے ) کہاں دفن کئے جائیں گے وغیر ہم انه يدفن بين النبي صلى الله تعالى عليه وسلم والصديق الخ۔ وہ نبی کریم ﷺ اور حضرت صدیق اکبر sym-4کے قبر انور کے درمیان دفن کئے جائیں گے ۔“

ان تمام شواهد و براہین قاطعہ کے ہوتے ہوئے مرزا کا ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نما عمارت الگ تعمیر کرنا اسلام کی رفعت وسربلندی ہے یا اسلام کی بغاوت و دشمنی ! اسلامی شریعت پر کار بند ہوتا ہے یا اپنی جانب سے نئی شریعت ایجاد کرنا ؟ آپ خود فیصلہ کیجئے اور دو ٹوک کہئے کہ جو شخص نصوص قرآنی، احادیث صحیحہ متواترہ، تفاسیر قرآن اجماع امت اور ائمہ کلام کے خلاف بکواس کرتا ہے وہ گمراہ اور گمراہ گر تو ہو سکتا ہے مگر مہدی لغوی اعتبار سے بھی نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ مہدی موعود ہو جائے ۔ العیاذ باللہ تعالیٰ!

قرآن عظیم کی عظمتوں کے باب میں آپ نے بہت زور مارا ہے اور اس سلسلہ میں قادیانی اور قادیانیوں کے چودہ اہم اقتباسات کتب پیش کر دیا ہے چودہ نہیں چودہ ہزار یا چودہ لاکھ ان کے اقتباسات واقوال آپ پیش کریں لیکن اگر اس کے خلاف اس کی کتاب سے ثابت ہو جائے تو اب جب تک وہ اس بات سے تو یہ نہیں کرے گا اس کے چودہ لاکھ دلائل و براہین ردی کے ٹوکرے میں ڈال دینے کے قابل ہیں۔ کیا آپ نہیں جانتے ہیں کہ ایک بالٹی آب زمزم شریف میں ( خاکم بدہن ) اگر ایک قطرہ شراب کا یا پیشاب کا پڑ جائے یا ڈالا یا جائے تو پوری بالٹی کا آب زم زم نجس اور نا قابل استعمال ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مرزا اور مرزائیوں نے قرآن عظیم کی عظمتوں کا خوب خوب خطبہ پڑھا ہے بلکہ یہاں تک دعوی کرتا ہے کہ اب آسمان کے نیچے ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی قرآن پاک الجی تو میں کہوں گا کہ یہ سب ڈھونگ ہے اور خلق خدا کو گراہ کرنے کے اسباب ہیں۔ میں نے پہلے ہی اشارہ کیا تھا کہ مرزا نے مذہب کو سیاست حاضرہ کا رنگ دیکر پہلو دار بنادیا ہے وہ اور اس کے متبعین ہمیشہ دوہری پالیسی اختیار کرتے ہیں کہ چھٹکارا پانے کا راستہ بہر حال ایک طرف سے ضرور ہے۔ جے چڑھائی تو کوئی ایک ہی راستہ سے کرے گا پھر بھی دوسری طرف سے نکل بھاگنے کا راستہ رہے گا۔

وہر امکان بنایا ہے رہنے کو یار نے یہ
گھیرا جو ادھر سے تو ادھر سے نکل گیا۔

ممکن ہے میرے اس سوال کے جواب میں مجھے عقل سے پیدل بتاتے ہوئے آپ یہ کہیں کہ کہتا ہیں تو بے شمار ہیں مگر مرزا صاحب کا مقصد یہ ہے کہ ایسی کتاب جس کو صیح طور پر آسمانی سمجھا جائے اور جس کتاب پر ایمان لایا جائے اور جو آمَنتُ بِاللهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَكُتبه. " میں اللہ اور اس کے فرتے اور اس کی کتابوں پر ایمان لایا میں شامل ہو وہ صرف اور صرف قرآن عظیم ہے اگر واقعی اس جواب کے مطابق آپ کا ایمان ہے تو آپ نے مرزائیت کا ابھی مطالعہ نہیں کیا ہے۔ اس کی تصانیف کے مطالعہ کے بعد میں پورے اعتماد و یقین سے کہتا ہوں کہ یہ بھی مرزا کا ایمان کش فریب ہے وہ اس طریقہ سے قرآن پر ایمان رکھنے والوں کو اپنے سے قریب کر کے گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ سنئے اور مرزاہی کی زبانی سنئے۔

(۱) براہین احمدیہ ص ۲۸۶ ج ا سبحان الله تبارک و تعالی زاد مجدك وينقطع ابائك ويبداء منك الخ مرزا صاحب نے مذکورہ عبارت کا ترجمہ خود ہی اس طرح کیا ہے ( اس نے تیرے مجد کو زیادہ کیا تیرے آباء کا نام اور ذکر منقطع ہو جائے گا اور خدا تجھ سے ابتداء شرف و مسجد کا کرے گا یہاں آباء اور ذکر سے کیا مراد ہے نیز ابتارائے شرف و محمد کا کیا مقصد ہے؟ اگر آپ یہ کہیں کہ آباء سے مراد ان کے خاندانی باپ دادا ہیں تو یہ مرزا کے افکار و نظریات کے بالکل ہی خلاف ہوگا کیونکہ بہر حال وہ اپنے طور پر نبی نسبت پر روحانی نسبت کو مقدم رکھتا ہے اور جب اس کے خون میں اسرائیلی و فاطمی دونوں متضاد خون شامل ہے تو یقینی طور پر آباء سے مراد ان دونوں سلسلہ میں وہ افراد ہوں گے جو روحانیت کے تاجدار ہوں اب خواہ وہ کوئی بھی نبی و رسول ہوں یا صدیق و شہید ہوں یا ولی خدا ہوں کوئی تخصیص نہیں ہے سب کا نام ونشان قطعاً مٹادیا جائے گا۔ جب آباء کا تعیین ہو جائے گا تو اس کے ذکر کا تعین خود بخود ہو جائے گا اگر آباء میں حضرت موسیٰ حضرت عیسی اور سید کا ئنات احمد مجتبی، محمد مصطفے صلوات اللہ تعالی و سلامہ علیہ وعلیہم ہوں اور ذکر سے مراد یقینی طور پر توراۃ و انجیل اور قرآن پاک ہوگا۔ مرزا اس کی وحی کے مطابق نہ تو ان کے آباء کا شرف و مجد باقی رہے گا اور نہ ہی ان کا ذکر (کتب سماوی ) رہے گا کیونکہ اب شرف و مجد اور نسبت کی ابتداء تو مرزا سے ہی ہو رہی ہے۔ مرزا صاحب ایک غلطی کا ازالہ میں لکھتے ہیں میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی اور دونوں خونوں سے حصہ رکھتا ہوں لیکن میں روحانیت کی نسبت کو مقدم رکھتا ہوں ۔ اب آپ ہی کہیے مرزا نے مقدس اور روحانی شخصیتوں اور ان کے ذکر کتب سماوی) کو مانا یا منقطع کر دیا ؟ اور اب اس کے اس دعوے کی کیا حیثیت باقی رہ گئی ہے کہ آسمان کے نیچے صرف ایک ہی کتاب قرآن ہے؟

قرآن عظیم کے ماننے اور نہ ماننے کی بات تو واضح ہو چکی ۔ پھر بھی ممکن ہے کہ آپ کو گمان ہو کہ یہ بات تو مرزا صاحب کی الہامی کتاب سے اشارہ کنایہ ثابت ہوئی۔ لہذا میں آپ کو اب اس طرف لے چلتا ہوں جہاں صراحتاً مرزا نے صرف قرآن پاک ہی کو مدار نجات قرار نہیں دیا ہے بلک اس کے ساتھ دوسری باطل کتاب کو بھی جوڑ دیا ہے۔ آسمانی کتابوں میں صرف قرآن ہی کو موجودہ زمانہ میں صحیح اور سچا مانا ان کے نزدیک اسلام نہیں ہے بلکہ اصل اسلام تو ان کے یہاں یہ ہے کہ قرآن کے ساتھ براہین احمدیہ کو بھی کلام خدا اور منزل من اللہمانا جائے ۔ مرزا نے جس حیثیت سے قرآن کو مانا ہے اسی حیثیت بلکہ اس سے زیادہ تاکیدوں کے ساتھ براہین کو مانا اور ماننے کی ترغیب دی ہے۔۔ ۔۔۔ ملاحظہ ہو!

(۲) ” ایک غلطی کا ازالہ“ طابع دنا شر محمد یسین احمد یہ کتب خانہ قادیا مانہ قادیان اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر د محمد احمد ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی کیا مرزا کی اس عبارت میں بھی کوئی بات ڈھکی چھپی رہ گئی ہے جس کی وضاحت کی جائے۔ قرآن پاک کے ایک لفظ ایک نقطہ یا بقول آپ کے ایک شوشہ کو کوئی نہ مانے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے کہ کیا اسی طرح مرزا کی الہامی کتاب کا ایک نقطہ ایک شوشہ کو نہ مانے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہو تو ایساہی بغیر فرق ایک ذرہ کے مانے کا کیا مطلب ہوا۔ کیا مرزائی لوگ مرزا کے اقوال و عقائد کو اپنے لئے مشعل راہ نہیں بناتے ہیں؟ اور اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے یعنی جو براہین کو قرآن مان ہے تو بتائیے بقول آپ کے ایک کڑور مرزائیوں کو چھوڑ کر بقیہ تقریباً کریم کی طرح بغیر فرق ایک ذرہ کے نہ مانے وہ بے ایمان ۔ کشور مرزائیو ایک ارب مسلمان سب کے سب بے ایمان ہی ہیں۔ اسی کسوٹی پر آپ اپنے پلانوں میں دیکھ لیجئے کہ آپ کے علاوہ کوئی اور بھی مسلمان نظر آتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ مرزا نے قرآن شریف کی طرح بغیر فرق ایک ذرہ کے براہین احمدیہ کوقرار دیکر فرمان الہی کی شدید مخالفت کی یا نہیں ؟ قال الله تعالى: فَاتُوابِهُ وُرَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ (اس جیسی ایک ہی سورت تو لے آ5 ) ( کنز الایمان ) ۔ قرآن کے مثل کسی ایک سورۃ کا بھی پیش کرنا محال ہے لیکن مرزا نے پوری کتاب پیش کرنے کی جسارت کی ہے کیا آپ کے نزدیک یہ جرات حکم الہی اور قرآن عظیم کی کھلی ہوئی تو میں نہیں ہے۔ اگر تو ہیں نہیں ہے تو کیا آپ کسی بے ایمان چور چمار کو یہ کہنے کی اجازت دیتے ہیں کہ بر سر عام وہ یہ دعوی کرے کہ غلام احمد قادیانی بغیر فرق ایک ذرہ کے میری ہی طرح ہے اور جیسا کہ شراب خانہ میں میری بکواس ہے بغیر فرق ایک ذرہ کے ویسا ہی مرزا کی براہین ہے۔

اگر آپ کو مرزا سے دور کا بھی کوئی تعلق ہو گا تو یقینا اس دعوی میں مرزا اور اس کی براہین کی عظیم و جلیل تو ہین سمجھیں گے اور ہر گز کسی کو ایسی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے کہ مرزا یا اس کی براہین کی مثلیت و برابری کا دعوی کرتا پھرے۔ اس طرح مسلمانوں کے نزدیک بھی مرزا کا قول مذکور بدتر از بول ہے اور قرآن مجید کی بدترین توہین ہے۔ بالفرض اگر مزرا کا قول ہی کی ذات تک محدود ہوتا تو یہ کہہ کر گذرا جا سکتا تھا کہ بے ایمان کا ایمان ہی کیا جانے دو جو کہا اس کے ساتھ گیا۔ لیکن وہ تو اپنے قول و کردار کو اپنے متبعین کے لئے مشعل راہ قرار دیتا ہے بلکہ مدار نجات ٹھہراتا ہے۔ ایسی صورت میں کون مرزائی ہو گا کہ جو اس کے ایمان پر شک و شبہہ کر کے بھی مرزائی باقی رہے۔ مرزا کی کتابوں کے مطالعہ سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ وہ دیگر آسمانی کتابوں ہی کی طرح براہین احمدیہ کو نہیں مانتا بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہمیت و عظمت اپنی براہین کو دینا چاہتا ہے۔ کہ کسی آسمانی کتاب کی حقانیت و صداقت کے لئے کعبہ شریف میں جا کر قسم کھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی مگر براہین کی صداقت اور اس کے کلام الہی ہونے کے لئے وہ ایسے مصر ہیں کہ کعبہ شریف میں جا کر قسم کھانے کو پابہ رکاب ہیں۔

(۳) حوالہ مذکور اور میں بیت اللہ شریف میں کھڑے ہو کر قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے۔ آخر ایسا کیوں کیا قرآن عظیم کے مخالفین سے ان کا سابقہ نہیں پڑا تھا اور کیا کبھی انہوں نے قرآن پاک کے مخالفین کے مقابلہ میں یہ کہا کہ میں اس کے حق ہونے پر بیت اللہ شریف یا ، س کے حق ہونے پر بیت للہ شریف یا بیت المقدس میں کھڑے ہو کر تم کھانے کوتیارہوں۔ جب کہ اکثر اسے مخالفین قرآن سے مکالمہ کا موقع ملا۔ بلکہ اس باب میں مناظرہ تک کی نوبت آئی تو وہاں زبان پر مہر سکوت کیوں لگی ہوئی تھی جب اپنی بناوٹی کتاب کی حقانیت و صداقت کی بات آئی تو قسم کھانے کے لئے بیت اللہ شریف جانے کو کھڑے ہیں۔ کیا مرزا کی اس شاطرانہ چال سے ابھی بھی آپ منزل یقین کو نہیں پارہے ہیں اور کیا آپ کا دل نہیں بولتا ہے کہ مرزانت نئے طریقوں سے قرآن عظیم پر اپنی بناوٹی کتاب کو فوقیت دینا چاہتا ہے۔ نیز قرآن عظیم کی براہین احمدیہ کے مقابلہ میں توہین و تذلیل کر کے مسلمانوں کی حمیت دینی کو مجروح بلکہ چیلنج کر رہا ہے۔

بس بعض مجبوریوں کے پیش نظراپنی تحریر کاسلسلہ ابھی یہی ختم کر رہاہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اگر واقعی سائل نے مخلصانہ طور پر اپنی دستگیری کا سوال کیا ہے تو مولائے کریم بطفیل بھی رؤف و رحیم اسے صراط مستقیم کی ہدایت دے اور سواد اعظم کے طریق پر گامزن رکھے اور نبی آخر الزماں ﷺکی امت کے دجالوں سے بچائے ۔آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلين صلوات الله وسلامه عليه وعليهم اجمعين برحمتک یا ارحم الراحمین

نوٹ : مرزا قادیانی اور اس کے طوانیت کے کثیر اقوال کفریہ خبیثہ کو دیکھنا ہو تو فقیر غفر له کی تالیف قادیانی دھرم کا مطالعہ کیجئے جو اردو، انگلش اور ڈچ زبانوں میں دستیاب ہے۔

کتبہ عبدالواجد قادری غفر له دار الافتاء ادارہ شرعیہ بہار، پٹنہ

۲۲ جمادی الاول ۱4۰۱ ، ۲۹ مارچ ۱۹۸۱ء

فتاوی شرعیہ ،ج:3،ص؛123,139،شبیر برادرز اردو بازار لاہور

Netsol OnlinePowered by